واشنگٹن —
حال ہی میں دوبارہ منتخب ہونے والے امریکی صدر براک اوباما نےجمعرات کو مصروف دِن گزارا۔
اُنھوں نے دنیا بھر کے راہنماؤں سے رابطہ کرتے ہوئے اُن کی طرف سے دوستانہ اور ساجھے داری پر مبنی جذبات کے اظہار پر شکریہ ادا کیا۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ صدر نے منگل کے روز کی انتخابی کامیابی پر موصول ہونے والے پیغامات پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ عالمی چیلنجوں سےنبردآزما ہونے کے سلسلے میں وہ اپنےتمام ساتھی لیڈروں کے ساتھ کام کرنے کے خواہشمند ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے بتایا کہ صدر نے 13عالمی راہنماؤں کے ساتھ گفتگو کی، جِن میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون، مصر کے صدر محمد مورسی، فرانس کے صدر فرانسواں اولاں، اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نتن یاہو اور ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردگان شامل ہیں۔
صدر نے آسٹریلیا کی وزیر اعظم جولیا گیلارڈ، برازیل کے صدر دلما روسیف، کینیڈا کے وزیر اعظم اسٹیفن ہارپر، کولمبیا کے صدر جوان مینوئل سینتوس، جرمن چانسلر اینگلا مرخیل، بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ، سعودی بادشاہ عبداللہ بن عبد العزیز اور نیٹو کے سکریٹری جنرل ایندرے فوگ رسموسن سے بھی گفتگو کی۔
داخلی معاملات کے حوالے سے صدر نے بدھ کو ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایوان ِنمائندگان کے اسپیکر جان بینر کو ٹیلی فون کرکے کسی سمجھوتے پر پہنچنے کے لیےبات چیت کا آغاز کرنے پر گفتگو کی، تاکہ اِس سال کے آخر میں ازخود عمل میں آجانے والے بجٹ کٹوتیوں اور ٹیکس میں اضافے کے پیکیج سے بچا جاسکے۔
معاشیات دانوں نے متنبہ کیا ہے کہ اِس پیکیج کے باعث، جسے ’فسکل کِلف‘ کا نام دیا جا رہا ہے، ملک ایک بار پھر کساد بازاری کے چنگل میں پھنس کر رہ جائے گا۔
صدر اِس بات کے خواہاں ہیں کہ وہ امریکی جو سالانہ ڈھائی لاکھ ڈالر سےزائد کماتے ہیں وہ زیادہ انکم ٹیکس ادا کریں، جس بات کی بینر اور اُن کے ساتھی ریپبلیکنز سختی سے مخالفت کرتے آئے ہیں۔
تاہم، ایوان کے اسپیکر نے بدھ کے روز کہا کہ وہ کسی نئی حکومتی آمدن کے مخالف نہیں ہیں، تاوقطیکہ اِس سلسلے میں سوشل سکیورٹی اور میڈیکیئر کے پروگراموں میں تبدیلیاں لائی جائیں۔
لیکن، سینیٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے اکثریتی قائد ہیری ریڈ نے نامہ نگاروں کو بتایا ہے کہ کسی سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے کسی کو سوشل سکیورٹی کے معاملات کو چھیڑنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
سنہ 2011میں ’گرانڈ بارگین‘ کے نام سے طویل مدتی سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے صدر اور بینر کے درمیان ہونے والے مذاکرات ناکام رہے تھے۔
اُنھوں نے دنیا بھر کے راہنماؤں سے رابطہ کرتے ہوئے اُن کی طرف سے دوستانہ اور ساجھے داری پر مبنی جذبات کے اظہار پر شکریہ ادا کیا۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ صدر نے منگل کے روز کی انتخابی کامیابی پر موصول ہونے والے پیغامات پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ عالمی چیلنجوں سےنبردآزما ہونے کے سلسلے میں وہ اپنےتمام ساتھی لیڈروں کے ساتھ کام کرنے کے خواہشمند ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے بتایا کہ صدر نے 13عالمی راہنماؤں کے ساتھ گفتگو کی، جِن میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون، مصر کے صدر محمد مورسی، فرانس کے صدر فرانسواں اولاں، اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نتن یاہو اور ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردگان شامل ہیں۔
صدر نے آسٹریلیا کی وزیر اعظم جولیا گیلارڈ، برازیل کے صدر دلما روسیف، کینیڈا کے وزیر اعظم اسٹیفن ہارپر، کولمبیا کے صدر جوان مینوئل سینتوس، جرمن چانسلر اینگلا مرخیل، بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ، سعودی بادشاہ عبداللہ بن عبد العزیز اور نیٹو کے سکریٹری جنرل ایندرے فوگ رسموسن سے بھی گفتگو کی۔
داخلی معاملات کے حوالے سے صدر نے بدھ کو ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایوان ِنمائندگان کے اسپیکر جان بینر کو ٹیلی فون کرکے کسی سمجھوتے پر پہنچنے کے لیےبات چیت کا آغاز کرنے پر گفتگو کی، تاکہ اِس سال کے آخر میں ازخود عمل میں آجانے والے بجٹ کٹوتیوں اور ٹیکس میں اضافے کے پیکیج سے بچا جاسکے۔
معاشیات دانوں نے متنبہ کیا ہے کہ اِس پیکیج کے باعث، جسے ’فسکل کِلف‘ کا نام دیا جا رہا ہے، ملک ایک بار پھر کساد بازاری کے چنگل میں پھنس کر رہ جائے گا۔
صدر اِس بات کے خواہاں ہیں کہ وہ امریکی جو سالانہ ڈھائی لاکھ ڈالر سےزائد کماتے ہیں وہ زیادہ انکم ٹیکس ادا کریں، جس بات کی بینر اور اُن کے ساتھی ریپبلیکنز سختی سے مخالفت کرتے آئے ہیں۔
تاہم، ایوان کے اسپیکر نے بدھ کے روز کہا کہ وہ کسی نئی حکومتی آمدن کے مخالف نہیں ہیں، تاوقطیکہ اِس سلسلے میں سوشل سکیورٹی اور میڈیکیئر کے پروگراموں میں تبدیلیاں لائی جائیں۔
لیکن، سینیٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے اکثریتی قائد ہیری ریڈ نے نامہ نگاروں کو بتایا ہے کہ کسی سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے کسی کو سوشل سکیورٹی کے معاملات کو چھیڑنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
سنہ 2011میں ’گرانڈ بارگین‘ کے نام سے طویل مدتی سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے صدر اور بینر کے درمیان ہونے والے مذاکرات ناکام رہے تھے۔