صدر اوباما امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر رینچو میراج میں جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کی تنظیم آسیان کے اجلاس کی میزبانی کر رہے ہیں جہاں وہ ایشیا پیسفک میں امریکہ کے قائدانہ کردار کو مضبوط کرنے کے متعلق بات چیت کریں گے۔
اس پُرفضا مقام پر پیر اور منگل کو ہونے والے اجلاسوں کا ایجنڈا ایسے دیگر سربراہ اجلاسوں کی نسبت غیر رسمی ہے مگر ان میں امریکہ کے ایشیا پیسفک کے ممالک سے تعلقات کی تنظیم نو کے متعلق کئی معاملات پر غور کیا جائے گا۔
وائٹ ہاؤس مستقبل میں امریکہ کی سلامتی اور خوشحالی کے لیے خطے میں امریکہ کے کردار کو بہت اہمیت دیتا ہے۔
متحرک اور متنوع جنوب مشرقی ایشیائی خطے کو تیز ترقی اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کا سامنا ہے۔ یہ دونوں عوامل عالمی معیشت اور سلامتی پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔
اوباما انتظامیہ کے حکام کا کہنا ہے کہ آسیان سربراہ اجلاس کی میزبانی کر کے صدر اوباما جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سے تعلقات کے فروع کی کوششوں کے سلسلے میں اپنی صدارت کے آخری سال کے لیے عملی منصوبہ تشکیل دینا چاہتے ہیں اور آئندہ آنے والی انتظامیہ کے لیے پیغام چھوڑنا چاہتے ہیں کہ امریکہ کے لیے خطے میں قائدانہ کردار حاصل کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے اسی سطح کے روابط کی ضرورت ہو گی۔
اس منصوبے میں تجارت کے شعبے میں قریبی تعلقات، لوگوں کے باہمی روابط کا فروغ، متشدد انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے مزید تعاون اور مختلف مسائل پر قوموں کی رہنمائی کے لیے اصول و ضوابط کی تشکیل شامل ہونے کی توقع ہے۔
اتنظامیہ آسیان کو ایشیا پیسفک علاقے کا ’دل‘ اور پر امن اور قانونی طور پر اپنے مفادات کے حصول کے سلسلے میں علاقائی انفرسٹرکچر کی تعمیر کے لیے ایک بہترین پلیٹ فارم قرار دیتی ہے۔
بحیرہ جنوبی چین میں علاقائی تنازعات اور وہاں چین کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں سربراہ اجلاس کا اہم موضوع ہوں گی۔
امریکہ آسیان رہنماؤں کو ایک بہت واضح پیغام دے گا کہ وہ چین کی طرف سے علاقائی تنازعات میں فوجی مداخلت اور پورے خطے میں کشیدگی میں کسی بھی اضافے کی مخالفت کرتا ہے۔
چین کا طویل عرصہ سے مؤقف رہا ہے کہ وہ متنازع علاقوں پر حق ملکیت رکھتا ہے۔
امریکہ اور آسیان رہنما شمالی کوریا کی طرف سے راکٹ کے تجربے اور پیانگ یانگ کو اپنے اشتعال انگیز اقدامات کو ختم کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے چین کے کردار پر بھی بات چیت کریں گے۔
چین اور امریکہ شمالی کوریا پر اختلافات رکھتے ہیں مگر امریکہ کا خیال ہے کہ جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنا دونوں کے مفاد میں ہے۔
صدر اوباما اجلاس میں انسانی حقوق اور جمہوریت پر بھی بات چیت کریں گے مگر انتظامیہ کے حکام یہ تسلیم کرتے ہیں کہ آسیان ممالک کا سیاسی نظام ایک دوسرے سے مختلف ہے اور انسانی حقوق اور جمہوریت کے متعلق ان کا ماضی بھی ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ جمہوریت کی طرف سفر میں مثبت کارکردگی دکھانے والے میانمار جیسے ممالک کو امریکی حمایت حاصل ہو گی۔
امریکہ کے مطابق آسیان سے تعلق رکھنے والے دس ممالک ایشیا کی تیسری بڑی اور دنیا کی ساتویں بڑی معاشی طاقت ہیں جس کی مجموعی پیداوار 2.4 کھرب ڈالر ہے۔ ان ملکوں کی مجموعی آبادی 63 کروڑ 20 لاکھ ہے جن میں سے 65 فیصد کی عمر 35 سال سے کم ہے۔
ان ممالک کی معاشی ترقی کا زیادہ تک انحصار کاروبار، ٹیکنالوجی اور تربیت یافتہ انسانی وسائل پر ہے۔ امریکی حکام کا ماننا ہے کہ امریکہ اپنی معیشت اور عالمی معیشت میں جدت طرازی اور کاروباری صلاحیتوں کو مربوط کر کے ایسے ممالک کی مدد کر سکتا ہے۔