وائٹ ہاؤس نے منگل کو کہا کہ صدر اوباما نے سینیٹ کے اس بل پر دستخط کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں یوکرین میں روس کے مبینہ کردار کی وجہ سے اس پر مزید پابندیاں عائد کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔
سینیٹ کی طرف سے گزشتہ ہفتے منظور کیے گئے بل میں صدر کو یوکرین کی حکومت کے لیے 35 کروڑ ڈالر کی فوجی اور غیر فوجی امداد دینے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔
ممکنہ فوجی امداد میں ٹینک شکن ہتھیار، گولہ و بارود اور نگرانی کرنے والے ڈرون (طیارے) شامل ہیں۔ بل میں صدر کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگر روس کی دفاعی اور توانائی کی کمپنیاں جو یوکرین، جارجیا، مالدووا یا شام کو اسلحہ فروخت یا منتقل کرتی ہیں تو ان پر بھی پابندی عائد کر سکتے ہیں۔ تاہم بل میں پابندیوں یا فوجی امداد کو لازمی نہیں قرار دیا گیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ایرنسٹ نے اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر کو اس بل کے بارے میں اب بھی خدشات ہیں جسے یوکرین فریڈم سپورٹ ایکٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ صدر نے بل کو قانونی حیثیت دینے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ " اس سے صدر کو یہ لچک حاصل ہو گی" کہ وہ یورپی اتحادیوں کے ساتھ مل کر مزید تعزیراتی اقدامات لے کر اپنی حکمت عملی پر عمل کر سکتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی طرف سے یہ اقدام ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب روسی اقتصادیات روبل کی گرتی ہوئی قیمت کی وجہ سے خراب ہو رہی ہے جس کے باعث ماسکو کو کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تجزیہ نگار روس کے بحران کی وجہ تیل کی گرتی ہوئی قیمت اور اس سے پہلے مغرب کی طرف سے ماسکو پر مشرقی یوکرین میں روس نواز باغیوں کی مبینہ حمایت پر عائد کی گئی پابندیوں کو قرار دیتے ہیں۔
مشرقی یوکرین میں نیٹو کے تجزیہ کار اور یورپی مبصرین بار بار یہ اطلاع دے چکے ہیں کہ مبینہ طور پر باغیوں کے ساتھ مل کر روسی فوجی لڑ رہے ہیں اور ان کے پاس روسی اسلحہ بھی ہے۔
کریملن باغیوں کو براہ راست مدد کر فراہمی کو مسترد کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ یوکرین میں لڑنے والے روسی دستے یہ کام بطور رضاکار کر رہے ہیں۔