امریکی صدر براک اوباما نے منگل کو امریکی قانون سازوں سے پھر اپیل کی کہ 12 ملکی پیسیفک خطے میں تجارتی سمجھوتے کو منظور کیا جائے۔ اُنھوں نے کہا کہ چین نہیں امریکہ کو ایشیا پیسیفک خطے سے متعلق معاشی ضوابط کار طے کرنے چاہئیں۔
’دِی واشنگٹن پوسٹ‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں، اوباما نے چین اور 12 ملکوں کی جانب سے کی جانے والی کوشش کو زیادہ اہمیت نہیں دی، جس میں ایشیا میں مربوط معاشی ساجھے داری کے علاقائی سمجھوتا قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاکہ بحر الکاہل پار پارٹنرز کے معاہدے (ٹی پی پی) کے ساتھ مسابقت چھیڑی جائے۔ ’ٹی پی پی‘ وہ تجارتی معاہدہ ہے جو 11 ملکوں کے ساتھ امریکہ نے طے کیا ہے، جو پیسیفک اوشین کے ساحلوں پر واقع ہیں۔
امریکی سربراہ نے کہا کہ چین کی قیادت میں تشکیل دیا جانے والا یہ معاہدہ ’’حکومتی امداد اور ریاستی سہارے سے چلائے جانے والی صنعتوں کے ساتھ نامناسب مسابقت سے نہیں بچا سکتا‘‘، جس سے آزادانہ انٹرنیٹ کو یقینی بنانے، فنکاروں اور مصنفین کے حقوق دانش کا تحفظ کرنے یا کارکنان کے لیے یا ماحولیات کے لیے اعلیٰ معیار کا نفاذ نہیں کیا جا سکتا۔
تاہم، اُنھوں نے کہا کہ امریکی ثالثی میں سامنے آنے والا سمجھوتا ایسے تحفظات کے حصول میں مدد دے سکتا ہے، اور 18000 سے زائد محصولات کو ختم کرنے کا سبب بن سکتا ہے، جو دیگر ملکوں نے امریکی مصنوعات پر لگائے ہوئے ہیں۔
اوباما نے کہا ہے کہ ایک بار جب ’ٹی پی پی‘ کا سمجھوتا کام کرنا شروع کرے گا تو ’’امریکی کاروباری ادارے جو مصنوعات بناتے ہیں وہ اُنھیں برآمد کرسکیں گے جس کا مطلب یہ ہوا کہ روزگار کے بہتر مواقع میسر آسکیں گے‘‘۔
تجارتی سمجھوتے کے حق میں حمایت کے حصول میں اوباما کو مزاحمت درپیش رہی ہے، جب کہ اُن کی ڈیموکریٹک پارٹی میں بھی مخالفت حائل رہی ہے، جن میں وہ سرکردہ ڈیموکریٹس بھی شامل ہیں جو اُن کی جگہ لے سکتے ہیں جب وہ آئندہ جنوری میں اپنا عہدہ چھوڑیں گے، جن میں سابق وزیر خارجہ، ہیلری کلنٹن شامل ہیں۔ ریپبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار، جائیداد کےارب پتی کاروباری، ڈونالڈ ٹرمپ بھی اس کی مخالفت کرتے ہیں۔
ایسے میں جب صدارتی اور کانگریس کی مشکل کی شکار انتخابی مہم جاری ہے، قانون سازوں نے تجارتی سمجھوتے پر ووٹنگ کے لیے تاریخ کا تعین نہیں کیا، لیکن ممکنہ طور پر وہ سال کے اواخر میں اس کو زیر غور لائیں گے، جب نومبر کے انتخابات ہوچکے ہوں گے، جن میں اوباما کا جانشین چنا جائے گا۔
اوباما نے کہا کہ تجارتی ضوابط امریکہ کو نا کہ چین کو تحریر کرنے چاہئیں۔
اُنھوں نے کہا کہ کانگریس کے لیے یہ موقع میسر ہے کہ وہ ’ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ (تی پی پی)‘ کی منظوری دے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ’’تھیلا پکڑ کر نہیں، بلکہ قلم پکڑ کر کھڑا ہوا جائے‘‘۔