چین کے کئی انٹرنیٹ صارفین پہ یہ بھید رواں ہفتے ہی کھلا ہے کہ وہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ 'گوگل پلس' پر موجود امریکہ کے صدر براک اوباما کی ویب سائٹ تک آزادانہ رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔
گو کہ صدر اوباما کی ویب سائٹ تک چین سے رسائی زیادہ تر موبائل ہی کے ذریعے ممکن ہے لیکن انٹرنیٹ کے آزادانہ استعمال پر عائد کئی قدغنوں کا شکار چینی باشندوں کے لیے یہی بہت ہے اور وہ امریکی صدر کے صفحے پر اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کر رہے ہیں۔
چین کے انٹرنیٹ صارفین کی جانب سے صدر اوباما کے صفحے پر درج کیے گئے بعض پیغامات میں اظہارِ رائے کی آزادی اور انسانی حقوق کے احترام کا مطالبہ کیا گیا ہے جب کہ بعض افراد نے امریکی شہریت کے حصول سے متعلق معلومات کا تقاضا کیا ہے۔
شدتِ جذبات سے مغلوب بعض پیغامات میں صدر اوباما سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ چینی عوام کو "آزادی" دلائیں۔
لیکن 'ڈینوی ڈاٹ آرگ' نامی ویب سائٹ کے مدیر اعلیٰ جرمی گولڈ کورن کے نزدیک ان میں سے بیشتر پیغامات مزاحیہ یا مضحکہ خیز ہیں۔ ان کے بقول اس نوع کا مزاح چینی ثقافت کا ایک حصہ ہے۔
گولڈ کورن کا کہنا ہے کہ بیشتر چینی باشندے محض اس لیے صدر اوباما کے صفحے پر آتے ہیں کیوں کہ امریکی صدر کو براہِ راست پیغام دینے کا عمل ان کے لیے خوش گوار حیرت کا باعث ہوتا ہے کیوں کہ چینی عوام کو اپنی قیادت کے ساتھ اس طرح کے براہِ راست رابطوں کے مواقع میسر نہیں۔
لیکن وہ واضح کرتے ہیں کہ امریکی صدر کے صفحے پر درج کردہ پیغامات چین بھر کی رائے عامہ کی درست عکاسی نہیں کرتے۔
ایک غیر ملکی سربراہِ مملکت کے ساتھ رابطوں میں چینی باشندوں کی اس دلچسپی پر چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ہونگ لی کہتے ہیں کہ ان کا ملک اپنے شہریوں کے انٹرنیٹ پر اظہارِ رائے کی آزادی کے حق کا محافظ ہے۔
لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ خبردار کرتے ہیں کہ چینی باشندوں کو اپنے اس حق کا استعمال ملکی قوانین اور قواعد کے مطابق انجام دینا چاہیے۔
واضح رہے کہ چین میں حکام نے کئی ایسی ویب سائٹوں کو عوام کے لیے بند کر رکھا ہے جنہیں حکومت غیرقانونی یا فحش سمجھتی ہے۔ ممنوعہ ویب سائٹوں کی طویل فہرست میں 'فیس بک'، 'ٹوئٹر' اور 'یوٹیوب' بھی شامل ہیں۔