رسائی کے لنکس

امجد اسلام امجد؛ ’وارث‘ لکھنے والا روایتوں کا وارث


’محبت ایسا دریا ہے کہ بارش روٹھ بھی جائے تو پانی کم نہیں ہوتا‘۔ امجد اسلام امجد کی نظم ’محبت ایسا نغمہ ہے‘ کے یہ مصرعے اور کتنے ہی شعر ان کے چاہنے والوں کے دل و دماغ پر نقش ہیں۔

امجد اسلام امجد شاعری اور ٹی وی ڈرامے دونوں ہی شعبوں میں اپنی منفرد شناخت بنانے والے تخلیق کار تھے۔

شاعری کی بات کی جائے تو نقاد حمید شاہد کا کہنا ہے کہ امجد اسلام امجد کی شاعری اور نظموں میں رومان ہی سب سے بڑا موضوع ہے لیکن زبان کی بھرپور صلاحیت کی وجہ سے اُنہوں نے اس موضوع کو متانت کے ساتھ نبھایا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 60 کی دہائی کے بعد شاعر ی میں کئی تجربات ہوئے لیکن امجد روایت سے جڑے رہے۔ روایت سے اس تعلق کے ساتھ ہی انہوں نے ہر نسل اور عمر سے تعلق رکھنے والوں کو متاثر کیا۔

معروف شاعر اور ڈراما پروڈیوسر ایوب خاور کا کہنا ہے کہ امجداسلام امجد نے غزل و نظم میں سے کسی ایک تک خود کو محدود نہ رکھا۔وہ مشکل الفاظ کا استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ سب کو سکھاتے تھے کہ عام لب و لہجے کے لیے جو الفاظ موزوں ہوں وہی استعمال کرنے چاہئیں۔

’ان کی نظمیں سامعین سناتے تھے‘

حمید شاہد کا کہنا ہے کہ مشاعرے کی روایت میں غزل سنائی جاتی ہے لیکن امجد اسلام امجد یہاں بھی اپنی الگ راہ بنانے والوں میں شامل تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مشاعروں میں نظمیں سنانے میں ایسی کامیابی حاصل کی کہ اکثر ان کی نظمیں سامعین کو یاد ہوتی تھیں اور ان کے ساتھ ساتھ انہیں پڑھا کرتے تھے۔

ایوب خاور کے بقول امجد اسلام امجد غزل کے تو اچھے شاعر تھے ہی، نظم اور نغمہ نگار ی میں بھی انہیں کمال حاصل تھا۔ ایک زمانےمیں ترقی پسند شاعر ی کی طرف رجحان ہونے کی وجہ سے ان کی شاعری میں ایک اور زاویے کا اضافہ ہوگیا تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان کی بحیثیت پروڈیوسر امجد اسلام امجد سے ملاقات بہت بعد میں ہوئی لیکن یہ تعلق پچاس سال سے بھی زیادہ پرانا تھا۔

ایوب خاور کہتے ہیں کہ جب 70 کی دہائی کے آغاز میں احمد ندیم قاسمی کے مشہور رسالے 'فنون' میں نوجوان شاعر کے طور پر ان کی غزلیں چھپتی تھیں تو امجد اسلام امجد اس وقت بھی ایک نامی گرامی شاعر تھے۔

ایوب خاور کے بقول وہ واحد شاعر تھے جنہوں نے بڑی بڑی تعداد میں ڈرامے لکھے اور میری خوش قسمتی ہے کہ ان جیسے نامور ڈرامہ نگار نے مجھے اس قابل سمجھا کہ میں نے ان کے ڈراموں کی ہدایت کاری دی۔ان کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ کامیاب ڈراموں کے خالق ہونے کے باوجود ان کی گردن میں سریا نہیں آیا بلکہ شخصیت میں نرمی بڑھتی چلی گئی۔

’وارث‘ لکھنے والا روایات کا وارث

سن 1979 میں پی ٹی وی پر آنے والا ڈراما سیریل ’وارث‘ ٹی وی پر ان کے سفر آغاز تھا۔ یہ ایسا شان دار آغاز تھا جس کے بعد وہ اگلے 30 برسوں تک اپنے ڈراموں کے ذریعے ناظرین کو تفریح کے ساتھ ساتھ سماجی آگاہی دینے میں بھی کامیاب رہے۔

اس کے علاوہ انہوں نے ٹی وی پر 'یانصیب کلینک' ، ’سمندر‘، 'دن'، ’رات‘، ’وقت‘، 'فشار' ، 'دہلیز' اور 'شیردل' جیسے کئی ڈرامے لکھے جنھیں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ لیکن’وارث' اس قدر مقبول ہوا کہ کئی دہائیاں گزرنے کے بعدبھی لوگوں کو اس کے کردار، مکالمے اور کہانی یادہے۔

تین سال قبل وائس آف امریکہ سے ڈرامہ 'وارث' کے 40 سال مکمل ہونے پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں ںے کہا تھا کہ اس دور میں پی ٹی وی کے لاہور اسٹیشن کی جنرل مینیجر کنور آفتاب نے اُنہیں ڈراما لکھنے کا کہا تو ان کے دماغ میں ایک ایسا اسٹرکچر موجود تھا جس کی مدد سے انہوں نے 'وارث' کی ابتدا کی۔

اُن کے بقول جب وہ ڈراما لکھ رہے تھے تو انہیں اندازہ تھا کہ اپنے منفرد اسٹائل اور وزنی اسکرپٹ کی وجہ سے یہ لوگوں کو کافی پسند آئے گا۔ لیکن 40 سال بعد بھی لوگ اس کے کرداروں کی گہرائی اور مکالموں کی طاقت کو یاد رکھیں گے، اس کا اُنہیں اندازہ نہیں تھا۔

یہ سوال ان کے ہر مداح کے ذہن میں تھا کہ پی ٹی وی کے مقبول ترین ڈراما نگاروں میں شامل ہونے والے امجد اسلام امجد نے پاکستان میں نجی ٹی وی کے ڈراموں کے عروج کے دور میں ڈراما کیوں نہیں لکھا؟

اس بارے میں مصنف عرفان جاوید بتاتے ہیں کہ لاہور میں جاری پاکستان لٹریچر فیسٹول میں وہ امجد اسلام امجد کے ساتھ نشست کی میزبانی کرنے والے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ امجد اسلام امجد نے انہیں کہا تھا کہ مجھ سے یہ سوال ضرور کرنا۔

وائس آف امریکہ کے ساتھ بات کرتے ہوئے عرفان جاوید نے کہا کہ میں ان سے یہ سوال اس نشست میں تو نہیں کرسکا لیکن ان سے دیرینہ تعلق کی وجہ سے میں اس کا جواب جانتا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ امجد اسلام امجد کو کئی مواقع پر بڑی پُرکشش آفرز ہوئیں۔ لیکن وہ سمجھتے تھے کہ کمرشلزم کے سیلاب نے ہماری کئی معاشی اقدار کو تباہ کردیا ہے۔ وہ اس تباہی کا حصہ نہیں بننا چاہتے تھے۔

عرفان جاوید کے مطابق امجد اسلام امجد اپنی سماجی اقدار اور ادبی و ثقافتی روایت سے گہری وابستگی رکھتے تھے۔ اسی لیے خاکہ لکھتے ہوئے انہوں نے اس کا عنوان بھی ’وارث‘ رکھا تھا کیوں کہ وہ ہماری ادبی روایت کے وارث تھے۔

مسکراہٹیں بکھیرنے والا سنجیدہ تخلیق کار

معروف اداکار سہیل احمد نے امجداسلام امجد کے تحریر کئے ہوئے کئی یادگار ڈراموں میں اداکاری کی۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امجد اسلام امجد سے ان کا دیرینہ تعلق تھا۔ اداکاری سے پہلے وہ ان کے ڈرامے دیکھ کر محظوظ ہوتے تھے، اور ان کےساتھ کام کرنے کو ایک اعزاز سمجھتے ہیں۔

عزیز ی کا کردار نبھانے والے سہیل احمد ٹی وی پر اپنی انٹری کا کریڈٹ بھی امجد اسلام امجد کو دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ امجد صاحب نے انہیں ایک اسٹیج ڈرامے میں دیکھ کر ان کی پہلے حوصلہ افزائی کی پھر چند ہی دنوں بعد انہیں 'فشار ' میں کاسٹ کیا۔

سہیل احمد بتاتے کہ زمانہ طالب علمی میں 'وارث'، 'سمندر'،'دہلیز'، 'وقت ' جیسے ڈرامے دیکھ کر امجد اسلام امجد کے بارے میں ایک سخت شخصیت کا خاکہ ذہن میں بنتا تھالیکن وہ اس کے بالکل برعکس تھے۔

پاکستان کی مقامی زبانیں اور ان کا ادب
please wait

No media source currently available

0:00 0:41:48 0:00

معروف نقاد حمید شاہد کا کہنا ہے کہ امجد اسلام امجد کی بذلہ سنجی، خوش گفتاری اور حاضر جوابی کے تو سبھی قائل تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ امجد اسلام امجد اور عطاالحق قاسمی کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ جہاں یہ ہوں وہاں محفل کشتِ زعفران بنی رہتی ہے۔

سہیل احمد کا بھی کہنا تھا کہ جب بھی وہ ملتے تھے ان کے چہرے پر لازماً ایک ہلکی سی مسکراہٹ ہوتی تھی جو دل سے نکلتی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ دوسروں سے اس طرح مختلف تھے کہ دوسروں کی عمر بڑھنے کے ساتھ دل تنگ ہو جاتا ہے لیکن امجد صاحب جتنے بڑے آدمی تھے اتنا ہی بڑا ان کا دل تھا۔

سیلف میڈ لوگوں کا المیہ

عرفان جاوید کا کہنا ہے کہ امجد اسلام امجد کی شخصیت کی بذلہ سنجی اور ان کی پُرلطف گفتگو دراصل ایک پردہ تھا جو انہوں نے اپنے کئی دکھوں پر ڈال رکھا تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان سے امجد اسلام امجد نے اپنی ان گنت ملاقاتوں کی وجہ سےوہ ان کے کئی ذاتی المیوں سے واقف ہیں لیکن وہ انہیں اپنے قہقہوں میں چھپا دیتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ امجد اسلام امجد کو سب سے بڑا دکھ یہ تھا کہ جب وہ کسی مقام پر پہنچے، خوش حالی آئی اور انہیں آسودگی نصیب ہوئی تو ان کی والدہ ان کے ساتھ نہیں تھیں۔

’کربلا کے بعد سب سے زیادہ المیہ ادب تقسیم پر لکھا گیا‘
please wait

No media source currently available

0:00 0:08:19 0:00

زندگی کے ایسے المیوں کا اظہار ان کی ’سیلف میڈ آدمی کا المیہ‘ جیسی نظموں میں بھی ہوتا ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ اپنے بل پر زندگی میں راستہ بنانے والوں کو کامیابی تومل جاتی ہے لیکن وہ کس احساس سے گزرتے ہیں:

یعنی ان کو محنت کا اجر مل تو جاتا ہے
لیکن اس طرح جیسے
قرض کی رقم کوئی قسط قسط ہو جائے
اصل جو عبارت ہو پسِ نوشت ہو جائے
فصلِ گُل کے آخر میں پھول ان کے کھلتے ہیں
ان کے صحن میں سورج دیر سے نکلتے ہیں

ان کا جانا بھی ایک کہانی سی لگتی ہے

ایوب خاور کے امجد اسلام امجد کی شخصیت لٹریچر کی لائبریری کا درجہ رکھتی تھی۔ مصروف ہونے کے باوجود تسلسل کے ساتھ درس و تدریس کے شعبے سے بھی جڑے رہے ، ان کی خاص بات تھی کہ وہ استاد کی حیثیت سے کتاب سامنے رکھ کر نہیں پڑھاتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ امجد اسلام امجد نے اپنی زندگی میں لاتعداد نوجوانوں کو پڑھایا ، وہ صرف زبان ہی نہیں سکھاتے تھے، بلکہ اس کو تخلیقی انداز میں استعمال کرنے کی ترغیب بھی دیتے تھے۔ ان کی تعلیم کی جانب ماڈرن اپروچ نے انہیں ہردل عزیز استاد بنادیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ امجد اسلام امجد کا اس دنیا سے چلے جانا بھی ایک کہانی سی لگتی ہے۔ایسے لوگوں کو ہمیشہ یاد رکھا جانا چاہیے۔

حقیقت یہ ہے کہ جس شاعر نے ’محبت کے نام ایک نظم‘ جیسی تخلیقات کی ہوں، اسے فراموش کیا بھی کیسے جاسکتا ہے۔

اگر کبھی میری یاد آئے
تو چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں
کسی ستارے کو دیکھ لینا
اگر وہ نخل فلک سے اڑ کر تمہارے قدموں میں آ گرے تو
یہ جان لینا وہ استعارہ تھا میرے دل کا
اگر نہ آئے۔۔۔
مگر یہ ممکن ہی کس طرح ھے تم کسی پر نگاہ ڈالو
تو اس کی دیوار جاں نہ ٹوٹے
وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے
اگر کبھی میری یاد آئے
گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں خوشبوؤں میں تمہیں ملوں گا
مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا
میں اوس قطروں کے آئنوں میں تمہیں ملوں گا
اگر ستاروں میں اوس قطروں میں خوشبوؤں میں
نہ پاؤ مجھ کو
تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا
میں گرد ہوتی مسافتوں میں تمہیں ملوں گا
کہیں پہ روشن چراغ دیکھو تو سوچ لینا
کہ ھر پتنگے کے ساتھ میں بھی بکھر چکا ہوں
تم اپنے ہاتھوں سے ان پتنگوں کی خاک دریا میں ڈال دینا
میں خاک بن کر سمندروں میں سفر کروں گا
کسی نہ دیکھے ہوئے جزیرے پہ رک کے تم کو
صدائیں دوں گا
سمندروں کے سفر پہ نکلو تو
اس جزیرے پہ بھی اترنا!

  • 16x9 Image

    عمیر علوی

    عمیر علوی 1998 سے شوبز اور اسپورٹس صحافت سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کے نامور انگریزی اخبارات اور جرائد میں فلم، ٹی وی ڈراموں اور کتابوں پر ان کے تبصرے شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد نام وَر ہالی وڈ، بالی وڈ اور پاکستانی اداکاروں کے انٹرویوز بھی کر چکے ہیں۔ عمیر علوی انڈین اور پاکستانی فلم میوزک کے دل دادہ ہیں اور مختلف موضوعات پر کتابیں جمع کرنا ان کا شوق ہے۔

  • 16x9 Image

    رانا محمد آصف

    Rana Muhammad Asif is a multimedia journalist based in Karachi, Pakistan.

XS
SM
MD
LG