رسائی کے لنکس

طالبان نے درجنوں افغان فوجی اہلکار یرغمال بنالیے


فائل فوٹو
فائل فوٹو

افغانستان میں حکام نے تصدیق کی ہے کہ طالبان جنگجووں نے سرکاری فوج کے 58 اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا ہے۔

حکام کے مطابق ان اہلکاروں کو ترکمانستان کی سرحد سے متصل افغان صوبے بادغیس میں طالبان اور سرکاری فوج کے درمیان حالیہ جھڑپوں کے دوران یرغمال بنایا گیا ہے۔

افغان وزارتِ دفاع نے پیر کو تصدیق کی ہے کہ سرکاری فوج کے وہ 58 دیگر اہلکار واپس افغانستان پہنچ گئے ہیں جو شمالی مغربی سرحدی ضلعے بالا مرغاب میں طالبان کے حملے سے بچنے کے لیے سرحد پار کرکے ترکمانستان چلے گئے تھے۔

وزارتِ دفاع کے مطابق علاقے میں مزید کمک بھیج دی گئی ہے اور لاپتا اہلکاروں کی تلاش اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے چھاپہ مار کارروائیاں جاری ہیں۔

افغان وزارتِ خارجہ نے اپنے ایک علیحدہ بیان میں سرحد پار جانے والے افغان فوجی اہلکاروں کا خیال رکھنے اور انہیں طبی امداد فراہم کرنے پر ترکمانستان کی حکومت کا شکریہ ادا کیا ہے۔

طالبان نے بالا مرغاب پر قبضے کے لیے دو ہفتے قبل حملہ کیا تھا جس کے بعد سے جنگجووں اور سرکاری فوج کے درمیان علاقے میں جھڑپیں جاری تھیں۔

جھڑپوں میں اطلاعات کے مطابق اب تک سرکاری فوج کے درجنوں اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ طالبان نے لگ بھگ 200 کو یرغمال بنا لیا ہے۔

لیکن افغان حکام نے اب تک صرف 58 اہلکاروں کو یرغمال بنائے جانے کی تصدیق کی ہے۔

علاقے سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ضلعے کے کئی اہم علاقے اور چوکیاں طالبان کے قبضے میں جا چکی ہیں۔ لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ ضلعے کے مرکزی شہر پر تاحال افغان فورسز کا کنٹرول ہے۔

طالبان نے اتوار کو سوشل میڈیا پر سکیورٹی فورسز کے 72 مبینہ اہلکاروں کی تصاویر جاری کی تھیں جنہوں نے طالبان کے دعوے کے مطابق بالا مرغاب میں لڑائی کے دوران ہتھیار ڈال دیے تھے۔

طالبان کا دعویٰ ہے کہ صوبہ بادغیس کے چھ میں سے بیشتر اضلاع یا تو مکمل طور پر ان کے کنٹرول میں ہیں یا وہ وہاں پوری طرح سرگرم ہیں۔ لیکن طالبان کے ان دعووں کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں۔

طالبان کے تازہ حملے ایسے وقت ہو رہے ہیں جب طالبان اور امریکہ کے نمائندوں نے حال ہی میں قطر میں کئی ہفتوں تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد افغان جنگ کے خاتمے پر اتفاقِ رائے ہونے کا اعلان کیا تھا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ میدانِ جنگ میں طالبان کے ان حملوں اور ان کی پیش قدمی کا فائدہ مذاکرات کی میز پر جنگجووں کو ہوسکتا ہے اور وہ اسی لیے امریکہ سے مذاکرات کےباوجود افغانستان میں اپنے حملے نہیں روک رہے۔

XS
SM
MD
LG