دنیا بھر میں معاشی شرح نمو میں کمی اوریورپ کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کی وجہ سے گزشتہ چند روز میں تیل کی قیمتوں میں ایک بار پھر کمی دیکھی گئی ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ تیل کی مانگ کم ہونے کے نتیجے میں اس کی قیمتیں مزید گر سکتی ہیں۔
تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے صارفین پر معاشی دباؤٴ تو کچھ کم ہوا ہے مگر عالمی معیشت کے بارے میں تحفظات کم نہیں ہوئے۔ ماہر معاشیات ریلولا ڈوگر کہتی ہیں کہ بات تیل کی طلب میں کمی پر آ رکتی ہے۔
ان کا کہناہے کہ یورپ کے حالات ، امریکہ میں معاشی نمو کے حوالے سے پریشانی ، یہاں تک چین کی اقتصادی ترکی کی رفتار بھی اب اتنی تیز نہیں رہی جتنی کہ توقع کی جا رہی تھی۔
چند ماہ پہلے حکومت پاکستان نے تیل کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کیا تھا جس پر عوام نے شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا۔کچھ دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی تیل کی قیمتیں کافی حد تک ملکی معیشت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
عالمی سطح پر معیشت میں سست روی کا مطلب تیل کی طلب میں کمی ہے۔ اور ایسے ممالک کے لئے جن کی معیشت کا انحصار تیل کی برآمدات پر ہے۔ ایک ڈالر فی بیرل کمی کا مطلب اربوں ڈالر کا خسارہ ہے۔
زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ 84 ڈالر فی بیرل ایک منافع بخش قیمت ہوتی ہے مگر بعض ماہرین کے مطابق قیمتوں میں مزید کمی کی توقع ہے اور وہ 70 ڈالر فی بیرل کی قیمت تک گر سکتی ہے۔
تیل کی قیمتوں میں کمی کی ایک اور وجہ یورو اور ڈالر میں آپس کا تعلق ہے۔ جب ڈالر مضبوط ہوگا تو تیل کی قیمت کم ہو گی۔ مگر ماہرین کہتے ہیں کہ کچھ اور وجوہات بھی تیل کی قیمت پر اثر انداز ہو سکتی ہیں، جن میں غیر یقینی عالمی حالات ، موسمیاتی تبدیلیاں اور پابندیوں کے نتیجے میں ایران کا ردعمل بھی تیل کی منڈی پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔
تیل کی سپلائی میں غیر یقینی صورتحال کے باعث ہی امریکہ کینیڈا کے ساتھ 13 ارب ڈالر کی لاگت سے پائپ لائن بچھانے پر کام کر رہا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ٹرانس کینیڈا پائپ لائن مکمل ہونے سے امریکہ کا مشرق وسطیٰ کے تیل پر انحصار کم ہو جائے گا جس سے قیمتوں میں استحکام پیدا ہوگا۔
تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود توانائی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلے سال کے مقابلے میں دنیا بھر میں ہر روز دس لاکھ بیرل زیادہ تیل استعمال ہو رہا ہے۔