پاکستان میں تھیلے سیمیا کے مکمل خاتمے کے لئے کوشاں امریکہ اور پاکستان میں قائم ایک ادارے عمیر ثنا فاؤنڈیشن کے بانی ، صدر اور کینسر کے ایک ماہر معالج، امریکہ میں آباد ڈاکٹر کاشف حسین انصاری اور پاکستان میں ادارے کے روح رواں ان کے بھائی ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری نے، جو بچوں میں خون کی بیماریوں کے ایک ماہر معالج ہیں، پروگرام ہر دم رواں ہے زندگی میں تھیلے سیمیا کے مرض پر اور 2030 تک پاکستان کو اس مرض سے یکسر پاک کرنے کے اپنے ادارے کے مشن پر بات کی ۔
ڈاکٹر کاشف نے اپنا یہ مشن اپنے دوبچوں عمیر اور ثنا کی یاد میں شروع کیا ہے جو امریکہ اور دنیا بھر کے قابل ڈاکٹروں اور بے پناہ وسائل کے استعمال کے باوجود خون کی ایک بیماری سے جانبر نہ ہو سکے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا ادارہ گزشتہ پندرہ برس سے پاکستان میں تھیلے سیمیا کےمرض میں مبتلا بچوں کو علاج اور دیکھ بھال کی معیاری سہولیات مفت فراہم کر رہا ہے جن کے والدین اس مہنگے علاج کی استطاعت نہیں رکھتے۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں فخر ہے کہ ان کے ادارے نےپاکستان میں اپنی ریسرچ کی بنیاد پرپہلی بار کینسر کے مریضوں کے علاج کےلیے استعمال کی جانے والی ایک د وا ہائیڈروکسی یوریا کو تھیلے سیمیا کے علاج کے لیے استعمال کیا جس سے مریضوں کو خون دینے کی ضرورت میں تقریباً اسی فیصد تک کمی ہو جاتی ہے۔
ان کی یہ ریسرچ اب امریکہ اور برطانیہ سمیت تمام مغربی ملکوں ترقی یافتہ ملکوں کی میڈیکل نصابی کتابوں ، سائنسی جرائد اور تعلیمی اداروں میں تدریس کا حصہ بن چکی ہےاور اب یہ دوا امریکہ، برطانیہ اور دوسرے مغربی ملکوں میں تھیلے کے علاج کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تھیلے سیمیا خون کی ایک جینیاتی بیماری ہے جو خاندان میں شادی کے نتیجے میں یا اس بیماری کے جینز رکھنے والے دو افراد کی شادی کے نتیجے میں ان کے بچوں میں پیدا ہو جاتی ہے ۔ اس مرض میں مبتلا افراد میں خون بننا بند ہو جاتا ہے اور انہیں زندگی بھر خون دینے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ انہیں عام طور پر مہینے میں دو یا تین بار خون دینے کی ضرورت پڑتی ہے اور ان کی زندگی کی ڈور صرف خون سے بندھی رہتی ہے ۔ لیکن اگر انہیں مسلسل خون دیا جاتا رہے تو ا ن کے جسم میں آئرن کی مقدار میں اضافہ ہو جاتا ہے جس سے ان کے دل ، گردے پھیپھڑے ، جگر اور جسم کے دوسرے اعضا متاثر ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث وہ بچہ اوسطاً صرف پانچ یا چھ سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔
ڈاکٹر کاشف نے بتایا کہ اس مرض سے بچاؤ کا واحد طریقہ یہ ہے کہ شادی سے قبل دولہا دلہن کا تھیلے سیمیا کا ٹسٹ کرایا جائے اور اس سلسلے میں ان کی اور دوسرے متعلقہ اداروں کی کوششوں کے نتیجے میں سندھ اسمبلی نے خاندان کے اندر شادی سے پہلے تھیلے سیمیا کا لازمی ٹسٹ کرانے کا ایک بل منظور کر لیا ہے۔ یہ بل اب قومی اسمبلی میں بھی جا چکا ہے اور سینیٹ میں بھی اس بارے میں ایک قرار داد پیش کی جاچکی ہے۔
ڈاکٹر ثاقب نے بتایا کہ ان کے کلینک میں ہر سال چھ مہینے سے کم عمر کے ایک سو سے زیادہ نئے بچے علاج کے لیے آتے ہیں اور ان کے کلینک میں جب کسی خاندان کا ایک بچہ آتا ہے تو پھر اس کے پورے خاندان کی اسکریننگ اور ان کی راہنمائی اس انداز میں کی جاتی ہے کہ اس کے بعد اس خاندان سے کوئی اور بچہ اس مرض میں مبتلا نہیں ہوتا۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا ادارہ والدین کی رضامندی سے پیدائش سے قبل بچوں میں تھیلے سیمیا کی موجودگی کے ٹسٹ کی مدد سے چار ماہ کے جنبین کو دنیا میں آنے سے روکنے کی مفت سہولت فراہم کرتا ہے جس کے لیے تمام مکاتب فکر کے علما کے فتووں کی راہنمائی بھی حاصل کر لی گئی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا ادارہ اب تک بارہ ہزار سے زیادہ ایسے بچوں کی پیدائش روک چکا ہے جن میں اس موذمی مرض کی واضح علامتیں موجود تھیں۔
مزید تفصیلات کے لیے اس لنک پر کلک کریں