امریکہ اور برطانیہ میں طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ انہیں ایسے اشارے مل رہے ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے ہاں کرونا وائرس کی موجودہ لہر اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔
امریکہ میں اس ہفتے نئے مریضوں کی تعداد میں 78 فی صد اضافہ دیکھا گیا، جب کہ یورپ میں یہ اضافہ 31 فی صد تھا۔ طبی ماہرین کے لیے اطمینان کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس مدت کے دوران اموات کی شرح میں 10 فی صد کمی ہوئی۔
کووڈ-19 کیسز میں جنوب مشرقی ایشیا سب سے آگے
گزشتہ ہفتے کووڈ-19 کے نئے کیسز میں سب سے زیادہ اضافہ جنوب مشرقی ایشیا میں ہوا جہاں یہ شرح 400 فی صد تک نوٹ کی گئی۔ سب سے زیادہ کیسز بھارت، تھائی لینڈ اور بنگلہ دیش میں رپورٹ ہوئے۔ لیکن اسی دوران کرونا وائرس کے باعث اموات میں 6 فی صد کمی ہوئی۔
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کرونا وائرس کے بارے میں جاری ہونے والی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ہفتے عالمی وبا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں تقریباً 55 فی صد اضافہ ہوا ہے، جب کہ اموات کی تعداد تقریباً اتنی ہی رہی جتنی پہلے تھی۔
منگل کی رات جاری ہونے والی ہفتہ وار رپورٹ میں اقوام متحدہ کے صحت کے ادارے نے کہا ہے کہ پچھلے ہفتے دنیا بھر میں ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ نئے کیسز رپورٹ ہوئے جب کہ اموات 43 ہزار سے زیادہ تھیں۔
اس سے قبل کے ہفتے میں دنیا بھر میں کرونا وائرس کے 95 لاکھ کیسز رپورٹ ہوئے تھے جسے ڈبلیو ایچ او نے وبا کی سونامی کا نام دیا تھا۔
جنوبی افریقہ میں کرونا کا زور ٹوٹ گیا
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق افریقہ کے سوا دنیا کے ہر حصے میں کووڈ-19 کے کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آیا. تاہم, افریقہ کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وہاں وبا کے پھیلنے کی رفتار میں 11 فی صد کمی ہوئی۔
جنوبی افریقہ میں کرونا وائرس کی نئی جینیاتی قسم اومیکرون کے انکشاف کے بعد وہاں مریضوں کی تعداد میں برق رفتاری سے اضافہ ہوا۔ لیکن اب نئے مریضوں کی تعداد مسلسل گر رہی ہے اور طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ملک میں وبا کی لہر اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہی ہے۔
امریکی ریاست واشنگٹن کے شہر سیاٹل میں قائم یونیورسٹی آف واشنگٹن کے صحت سے متعلق علوم کے پروفیسر علی موکداد نے کہا ہے کہ "جتنی تیزی سے وبا کی لہر اپنی بلندی کی جانب گئی تھی، اب اتنی ہی تیزی سے نیچے آ رہی ہے"۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ "اگلے دو یا تین ہفتے انتہائی مشکل ہو سکتے ہیں، کیونکہ لازمی سروسز کے کارکنوں کے وبا میں مبتلا ہونے سے ہماری مشکلات بڑھ سکتی ہیں"۔
کرونا کی لہر جاتے جاتے بھی بہت لوگوں کو بیمار کر دے گی
کرونا وبا کی لہر کے اپنے خاتمے کی جانب بڑھنے کی خوش کن خبروں کے باوجود کئی ماہرین یہ انتباہ بھی کر رہے ہیں کہ اس وبا کے متعلق ہمیں ابھی بہت کچھ معلوم نہیں ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ اس کا اگلا مرحلہ کیا ہو گا اور وہ کیا شکل اختیار کرے گی۔
یونیورسٹی آف ٹیکساس کے کووڈ-19 امور کے شعبے کی ڈائریکٹر لورین اینسل میئرز کہتی ہیں کہ" اب جب کہ یہ وبا تنزلی کی جانب بڑھ رہی ہے، لیکن اب بھی بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو اس میں مبتلا ہو جائیں گے"۔
اسی طرح امریکی ادارے 'فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن' کی قائم مقام سربراہ جینٹ ووڈکاک نے منگل کے روز امریکی کانگریس کو بتایا کہ "اس وقت یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ فی الحقیقت کیا ہونے جا رہا ہے۔ کیونکہ اب بھی بہت سے لوگ وائرس میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ ہمیں یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ وبا پر کنٹرول سے متعلق ادارے مثلاً اسپتال، اور دیگر اہم شعبوں کی سروسز بلا روک ٹوک جاری رہیں"۔
امریکہ اور برطانیہ میں جس تیز رفتاری سے کرونا وائرس کے کیسز کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، اس کے پیش نظر ماہرین یہ توقع کر رہے ہیں کہ یہاں بھی وہی کچھ ہونے جا رہا ہے جس سے جنوبی افریقہ گزر چکا ہے، یعنی کرونا کی اس لہر کی اپنے خاتمے کی جانب واپسی۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایسٹ اینجلیا کے پروفیسر آف میڈیسن ڈاکٹر پال ہنٹر کہتے ہیں کہ ہم برطانیہ میں وبا کے کیسز میں یقینی طور پر کمی ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ لیکن میرا نہیں خیال کہ یہاں بھی اتنی ہی کمی ہو گی جب تک ہمیں یہ معلوم نہ ہو جائے کہ درحقیقت جنوبی افریقہ میں کیا ہوا تھا۔
امریکہ میں وائرس کے پھیلاؤ کے باوجود اسکول کھلے رکھنے کے اقدامات
طویل عرصے تک اسکولوں کی بندش کے بعد صدر بائیڈن کی انتظامیہ اومیکرون کے تیز رفتار پھیلاؤ کے باوجود کلاس روم کھلے رکھنا چاہتی ہے اور اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ بدھ کے روز بائیڈن انتظامیہ نے دیگر اقدامات کے ساتھ اسکولوں میں کرونا ٹیسٹ کی سطح کو دو گنا کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹیسٹوں کی تعداد ایک کروڑ سے زیادہ کر دی گئی ہے۔
اعلان میں کہا گیا ہے کہ فوری نتیجہ دینے والی آدھی ٹیسٹ کٹس کنڈر گارٹن سے 12 کلاس تک کے بچوں کو مفت فراہم کی جائیں گی جب کہ ماہانہ بنیادوں پر 50 لاکھ بچوں کے کرونا 'پی سی آر' ٹیسٹ کیے جائیں گے تاکہ اسکولوں کے دروازے کھلے رہیں۔
وائٹ ہاؤس کے صحت کے حکام نے کہا ہے کہ جنوری میں امریکیوں کو گھر میں ٹیسٹ کرنے کی 50 کروڑ ہوم کرونا ٹیسٹ کٹس مفت فراہم کی جا رہی ہیں۔
عالمی وبا کا خطرہ، چین نے امریکی پروازوں پر پابندی لگا دی
چین کے کئی شہروں میں کووڈ-19 کے کیسز کے انکشاف نے چینی حکام کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے, کیونکہ چین فروری کے شروع میں بیجنگ میں سرمائی اولمپکس کی میزبانی کی تیاری کر رہا ہے۔ کرونا کیسز میں اضافے سے دنیا بھر سے کھلاڑیوں اور آفیشنلز کی آمد اور کھیلوں کی سرگرمیوں میں خلل پڑ سکتا ہے۔
چین نے اپنے کم ازکم تین شہروں میں لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے بعد اب امریکہ سے آنے والی فلائٹس پر پابندی لگا دی ہے۔ چینی حکام کا کہنا ہے کہ اس پابندی کی وجہ امریکہ سے فضائی مسافروں میں کرونا کے پازیٹو ٹیسٹوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے۔ جنوری کے آغاز سے اب تک کم ازکم 70 مسافروں کا سفر پازیٹو ٹیسٹ کی بنا پر منسوخ کیا جا چکا ہے۔
چین کے شہری ہوابازی کے ادارے کے مطابق بین الاقوامی مسافروں پر پابندی کے اطلاق کے بعد اب بیرونی ملکوں سے چین کے لیے ایک ہفتے میں 200 پروازیں باقی رہ گئی ہیں، جو عالمی وبا کے آغاز سے قبل کے مقابلے میں محض دو فی صد تعداد ہے۔
چار ہفتوں میں اومیکرون کے چار کروڑ سے زیادہ کیسز
جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے کرونا وائرس ریسوس سینٹر کے اعداد و شمار کے مطابق بدھ کے روز تک دنیا بھر میں عالمی وبا کے متاثرین کی تعداد 31 کروڑ 42 لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔ تیزی سے پھیلنے والے ویرینٹ اومیکرون کے باعث گزشتہ 28 دنوں میں چار کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
پیر کے روز امریکہ میں کرونا وائرس کے ساڑھے 13 لاکھ سے زیادہ نئے کیسز رپورٹ ہوئے تھے جو کسی ایک دن میں نئے کیسز کا نیا عالمی ریکارڈ ہے۔ بیماریوں کی روک تھام اور بچاؤ کے امریکی ادارے سی ڈی سی کے ایک اعلان میں کہا گیا ہے کہ ان میں سے 98 اعشاریہ 3 فی صد کیسز اومیکرون کے تھے۔