پنجاب کے وزیر اعلٰی سردار عثمان بزدار نے تصدیق کی ہے کہ لاہور موٹروے پر خاتون کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے والے دو ملزمان میں سے شفقت علی نامی ایک ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
وزیر اعلٰی پنجاب کا کہنا ہے کہ دوسرے ملزم عابد کو بھی گرفتار کر لیا جائے گا۔
پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے بتایا کہ مرکزی ملزم عابد کو بھی جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ شفقت علی کا ڈی این اے میچ کر گیا ہے اور اس نے اعترافِ جرم بھی کیا ہے۔
اُنہوں نے بتایا کہ دونوں ملزمان عادی مجرم ہیں اور اس سے قبل بھی اہم شاہراہوں پر ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث رہے ہیں۔
جوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواست
دوسری جانب موٹروے ریپ کیس پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ میں سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان نے کہا ہے کہ ایسے واقعات پر حکومتوں کو معافی مانگنی چاہیے۔ ایک تاثر پیدا ہو گیا ہے کہ سڑک پر سفر کرنے والی بہو بیٹیاں محفوظ نہیں ہیں۔
واقعے کے بعد متنازع بیان دینے والے لاہور پولیس کے سربراہ عمر شیخ بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالتی کارروائی کے آغاز میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ آپ نے وہ نوٹی فکیشن دینا تھا جس کے تحت انکوائری کمیٹی بنی ہے اور اِس کمیٹی میں کون کون ہے؟
سرکاری وکیل نے وزیر قانون کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی کا نوٹی فکیشن عدالت میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ کمیٹی میں وزیر قانون پنجاب، ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم، فرانزک اور دیگر افسران کمیٹی کے رُکن ہیں۔ جس پر عدالت نے کہا کہ یہاں کمیٹی کمیٹی نہیں کھیلا جا سکتا۔ کمیٹی نے 13 ستمبر کو رپورٹ دینی تھی، کیا رپورٹ آئی ہے؟
چیف جسٹس نے ہدایات جاری کیں کہ کمیٹی کی رپورٹ ابھی منگوائیں اور رپورٹ نہیں ہے تو لکھ کر دیں کہ رپورٹ تیار نہیں ہے۔
سی سی پی او کا متنازع بیان
عدالت کی جانب سے سی سی پی او لاہور کے متنازع بیان کے بارے میں استفسار کرنے پر سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ آئی جی پنجاب پولیس نے موٹروے ریپ کیس بارے متنازع بیان دینے پر سی سی پی او کو شوکاز نوٹس دیا ہے۔
چیف جسٹس نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ شوکاز نوٹس میں کسی رولز کا ذکر نہیں ہے کہ کس قانون کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے۔ اِس موقع پر سی سی پی او نے کمرہ عدالت میں کہا کہ اُن کے بیان سے اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو اُس پر معافی مانگتے ہیں۔
مقدے کی تفتیش
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان نے سی سی پی او لاہور عمر شیخ سے مقدمے کی تفتیش کے بارے میں استفسار کیا۔ جس پر سی سی پی او لاہور روسٹرم پر آ گئے اور عدالت کو بتایا کہ پولیس 20 منٹ میں جائے وقوع پر پہنچ گئی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ موٹروے ہیلپ لائن پر رابطہ کرنے کے بعد خاتون کو کہا گیا آپ نیشنل ہائی وے اتھارٹی سے رابطہ کریں۔ ہائی وے والوں نے کہا پولیس سے رابطہ کریں۔ عدالت نے پوچھا کہ یہ موٹروے کب اوپن ہوئی ہے؟
سی سی پی او نے جواب دیا کہ وہ موٹروے میں بھی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ بد قسمتی سے اس موٹروے پر سیکیورٹی نہیں تھی۔
سی سی پی او لاہور نے کیس کی تفتیش کے بارے میں عدالت کو بتایا کہ ڈی جی نادرا سے بات کر کے تمام ریکارڈ نکلوایا ہے اور خاتون سے ملزمان کا حلیہ بھی پوچھا ہے۔ جس کے بعد پولیس نے اپنا کام شروع کر دیا۔ سی سی پی او نے مزید بتایا کہ ابھی تفتیش چل رہی ہے۔ 48 گھنٹوں میں ملزمان پکڑے جائیں گے۔
عدالت میں سانحہ ساہیوال کا ذکر
اِس موقع پر درخواست گزار کی جانب سے عدالت میں سانحہ ساہیوال کا بھی ذکر ہوا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ سانحہ ساہیوال سے متعلق صرف یہ کہیں گے کہ وہ فیملی بے گناہ تھی۔
دوران سماعت سی سی پی او نے کہا کہ اُن کے بیان سے اس خاتون کی اگر دل آزاری ہوئی ہے تو وہ سب سے معافی مانگتے ہیں۔ اِس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے پر حکومت کو بھی معافی مانگنی چاہیے۔
لاہور ہائی کورٹ نے ریپ کیس کے ملزمان کو فوری گرفتار کرنے کا حکم دیتے ہوئے سی سی پی او لاہور سے گینگ ریپ واقعہ کی تفصیلی رپورٹ 16 ستمبر کو طلب کر لی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ماورائے عدالت کام کی کسی کو اجازت نہیں ہے۔ ملزمان کو پکڑ کر ٹرائل کریں اور قانون کے مطابق سزا دیں۔ عدالت نے آئی جی پنجاب سے پورے پنجاب کی سڑکوں کی سیکیورٹی کے حوالے سے بھی 16 ستمبر کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ دیہات کی سڑکوں پر پولیس روز دو گھنٹے گشت کرے۔
واضح رہے کہ گوجرانولہ کی رہائشی خاتون سے مبینہ زیادتی کا واقعہ 8 اور 9 ستمبر کی درمیانی شب لاہور کے گجرپورہ تھانے کی حدود میں پیش آیا تھا۔
خاتون رات تقریباََ ڈیڑھ بجے بچوں کے ہمراہ لاہور سے گوجرانوالہ جانے کے لیے لاہور۔سیالکوٹ موٹروے پر سفر کر رہی تھیں جسے حال ہی میں ٹریفک کے لیے کھولا گیا ہے۔
مبینہ زیادتی کے واقعے کی ایف آئی آر کے مطابق لاہور سے گوجرانوالہ جاتے ہوئے خاتون کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہو گیا تھا۔ انہوں نے گاڑی روکی اور اپنے ایک عزیز کو مدد کے لیے فون کیا۔ جس پر انہوں نے موٹروے پولیس کی ہیلپ لائن پر فون کرنے کا مشورہ دیا۔
ایف آئی آر کے مطابق موٹروے پولیس کی ہیلپ لائن سے جواب ملا کہ متعلقہ علاقہ اُن کی حدود میں نہیں آتا۔ اسی دوران دو نامعلوم مسلح افراد آئے، جو خاتون اور گاڑی میں موجود ان کے دو بچوں کو قریبی کھیت میں لے گئے۔ جہاں خاتون کو مبینہ زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ملزمان ایک لاکھ روپے کے زیورات اور نقدی بھی لوٹ لی۔
ایف آئی آر کے مطابق واقعہ رات تقریباً تین بجے پیش آیا اور اِس کا مقدمہ صبح 10 بجے درج کیا گیا۔