افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی اپنے گھروں کو واپسی کا سلسلہ جاری ہے اور حکام کے مطابق اب تک تقریباً 70 ہزار سے زائد خاندان واپس جا چکے ہیں۔
2009ء میں پاکستانی فوج نے جنوبی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کی تھی جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر ملحقہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں میں عارضی طور پر منتقل ہو گئے تھے۔
ان کی واپسی کا مرحلہ وار سلسلہ رواں سال ہی شروع ہوا تھا اور حکام کے مطابق واپس جانے والے خاندانوں کو امدادی رقوم بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔
ایسے افراد جن کا گھر مکمل طور پر تباہ ہوا ان کے لیے چار لاکھ روپے جب کہ جزوی طور پر متاثر ہونے والے گھروں کے مالکان کو ایک لاکھ 60 ہزار روپے معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔
اپنے گھروں کو واپس جانے والے بظاہر خوش ہیں لیکن ان کی طرف سے شکایات کا بھی اظہار کیا جاتا رہا ہے جن میں خاص طور پر سرد موسم میں جنوبی وزیرستان میں بنیادی ضروریات زندگی کی عدم دستیابی کا تذکرہ غالب ہے۔
اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے سینیٹر صالح شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وہ یہ شکایات حکام کے علم میں لا چکے ہیں جنہیں دور کرنے کی یقین دہانیوں کے باوجود ابھی عملی طور پر کوئی اقدام دیکھنے میں نہیں آیا۔
"لوگ واپس تو جاتے ہیں لیکن وہاں زیادہ عرصہ ٹھہرتے نہیں، وہاں بنیادی اشیائے ضروری ہی موجود نہیں ہیں۔"
حکام کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے سمیت بحالی و تعمیر نو کا عمل بھی جاری ہے اور لوگوں کی شکایات کو دور کرنے کے لیے متعلقہ ادارے توجہ دے رہے ہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ جنوبی وزیرستان سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے بھی جون 2014ء میں فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد لاکھوں لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے تھے جب کہ ایک اور قبائلی علاقے خیبر ایجنسی سے بھی اسی بنا پر لوگوں نے اپنا گھر بار چھوڑا تھا۔
وفاقی و صوبائی حکومت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں کے جن حصوں کو شدت پسندوں سے پاک کر دیا گیا ہے وہاں لوگوں کی واپسی مرحلہ وار شروع کر دی گئی ہے۔