رسائی کے لنکس

بھارت: ادے پور میں مبینہ متنازع پوسٹ پر ہندو درزی قتل، صورتِ حال کشیدہ


حملہ آور محمد غوث اور محمد ریاض نے اس واقعے کی ویڈیو بھی بنائی تھی جس کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیا گیا بعد ازاں یہ ویڈیو وائرل ہوگئی۔
حملہ آور محمد غوث اور محمد ریاض نے اس واقعے کی ویڈیو بھی بنائی تھی جس کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیا گیا بعد ازاں یہ ویڈیو وائرل ہوگئی۔

بھارت کی مشرقی ریاست راجستھان کے شہر اُدے پور میں منگل کی شام کو مبینہ متنازع سوشل میڈیا پوسٹ پر دو مسلمانوں کے ہاتھوں ایک ہندو درزی کے قتل کے بعد صورتِ حال کشیدہ ہے۔

رپورٹس کے مطابق کنہیا لال نامی شخص سوشل میڈیا پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی معطل رہنما نپور شرما کی حمایت میں مواد پوسٹ کر رہا تھا، جس پر اسے جان سے مارنے کی دھمکی ملی تھی۔

متنازع سوشل میڈیا پوسٹ کنہیا لال کے خلاف پولیس میں ایک شکایت بھی درج کی گئی تھی جس پر پولیس نے اسے گرفتار کیا تھا البتہ اگلے روز اسے ضمانت مل گئی تھی۔ اس نے پولیس سے تحفظ کا مطالبہ بھی کیا تھا۔

رپورٹس کے مطابق محمد غوث اور محمد ریاض نامی دو افراد اپنے کپڑے سلوانے کے بہانے اس کی دکان میں داخل ہوئے اور پھر اس پر تیز دھاردار خنجر سے حملہ کر دیا۔ خنجر کے وار کے سبب کنہیا لال کی موقع پر ہی موت ہو گئی تھی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اس پر 26 مرتبہ خنجر سے وار کیے گئے جب کہ زیادہ خون بہنے کے سبب اس کی موت ہوئی۔

حملہ آور محمد غوث اور محمد ریاض نے اس واقعے کی ویڈیو بھی بنائی تھی جس کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیا گیا بعد ازاں یہ ویڈیو وائرل ہوگئی۔ ویڈیو میں حملہ آور مذہبی نعرے بھی لگا رہے ہیں۔

سات تھانوں کی حدود میں کرفیو نافذ

اس واقعے کے فوری بعد ہندو تنظیموں کی جانب سے شہر میں احتجاج کیا گیا۔ بعض مقامات پر مظاہرین نے آگ لگا کر شاہراہوں کو بھی بند کیا۔ پولیس نے حملہ آوروں کی گرفتاری کے لیے متعدد ٹیمیں تشکیل دی تھیں۔ واقعے کے دو گھنٹے بعد دونوں حملہ آوروں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

اس واقعے کے بعد اس علاقے میں کشیدگی ہے۔ احتجاج سے متاثرہ علاقے کے سات تھانوں کی حدود میں کرفیو بھی نافذ کیا گیا جب کہ پوری ریاست میں دفعہ 144 لگا دی گئی۔ حکام نے نقصِ امن سے بچنے کے لیے 24 گھنٹوں کے لیے انٹرنیٹ کو بھی بند کر دیا۔

بھارتہ خبررساں ادارے ’اے این آئی‘ کے مطابق مرکزی وزارتِ داخلہ نے دہشت گردی کے واقعات کی تحقیقات کرنے والے ادارے نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کو اس معاملے کی تحقیقات کی ہدایت کر دی ہے۔ ایجنسی کو کہا گیا ہے کہ وہ پتا لگائے کہ کیا اس معاملے میں کوئی بین الاقوامی تنظیم بھی ملوث ہے؟

واقعے کی مذمت

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، جماعت اسلامی ہند اور جمعیت علما ہند سمیت متعدد مسلم مذہبی تنظیموں اور جماعتوں کی جانب سے اس واقعے کی مذمت کی جا رہی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سیکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ایک بیان میں اس واقعے کے حوالے سے کہا کہ بی جے پی رہنما نپور شرما کا متنازع بیان مسلمانوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے۔ حکومت کی جانب سے نپور شرما کے خلاف کارروائی نہ کرنا مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔ تاہم اس کے باوجود کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

جمعیت علما ہند کے عہدے دار مولانا حکیم الدین قاسمی کے مطابق اس ملک میں قانون کا نظام ہے۔ کسی کو بھی قانون سے کھیلنے کی اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ تحمل سے کام لیں اور اپنے جذبات پر قابو رکھیں۔

جماعت اسلامی ہند نے بھی اس واقعے کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ مذہب کے نام پر نفرت انگیزی پر پابندی لگائے۔

جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر محمد سلیم انجینئر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ قانون ہاتھ میں لینے کا بڑھتا ہوا رجحان ملک کے لیے خطرناک ہے۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ہلاک ہونے والے ہندو درزی پر خنجر کے متعدد وار کیے گئے تھے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ہلاک ہونے والے ہندو درزی پر خنجر کے متعدد وار کیے گئے تھے۔

انہوں نے قتل کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس کی تحقیقات کی جائے۔ ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔

جماعت اسلامی نے بھی مسلم پرسنل لا بورڈ کی طرح بی جے پی کی معطل ترجمان نپور شرما کے خلاف قانونی کارروائی نہ ہونے اور ان کو تحفظ فراہم کرنے پر تشویش کا اظہار کیا۔

’انتہاپسندی پوری دنیا میں بڑھ رہی ہے‘

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ گزشتہ کچھ برس سے ملک میں مذہبی منافرت میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی بنیاد پر انتہاپسندی بڑھ رہی ہے۔


مصنف اور تجزیہ کار ڈاکٹر انل دت مشرا کہتے ہیں کہ انتہاپسندی صرف بھارت میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں بڑھ رہی ہے۔

انہوں نے دیگر ممالک میں گن کلچر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انسانی قدروں پر سے لوگوں کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بھارت میں اس صورتِ حال کے لیے سیاسی ماحول کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ڈاکٹر انل دت مشرا نے کہا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مذہب کے نام پر نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کرے۔

پولیس نے متعدد تھانوں کی حدود میں کرفیو نافذ کر دیا تھا جب کہ انٹرنیٹ کی فراہمی بھی معطل کر دی گئی تھی۔
پولیس نے متعدد تھانوں کی حدود میں کرفیو نافذ کر دیا تھا جب کہ انٹرنیٹ کی فراہمی بھی معطل کر دی گئی تھی۔

انہو ں نے ادے پور واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اس سے قبل مبینہ طور پر گائے کے تحفظ یا جے شری رام کا نعرہ لگوانے کے نام پر مسلمانوں کو ہجوم کے ہاتھوں ہلاک کیے جانے کے واقعات کی بھی مذمت کی۔

ان کے مطابق سیاسی مفاد کے لیے مذہب کے استعمال اور پھر مذہب کے نام پر ایک دوسرے سے نفرت کے بڑھتے رجحان کی وجہ سے حالات خراب ہوئے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔

ڈاکٹر انل دت مشرا نے حقیقی مذہبی شخصیات اور رہنماؤں سے اپیل کی کہ وہ سامنے آئیں اور لوگوں کو بتائیں کہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے جس مذہب کی وکالت کی جا رہی ہے، وہ حقیقی مذہب نہیں ہے۔ وہ لوگوں کو اس بات کے لیے قائل کریں کہ وہ مذہب کے نام پر سیاسی شخصیات کے ہاتھوں کا کھلونا نہ بنیں۔

’کوئی بھی مذہب تشدد کی تعلیم نہیں دیتا‘

اجمیر میں واقعے مشہور خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کے دیوان زین العابدین نے بھی اس واقعے کی مذمت کی اور کہا کہ کوئی بھی مذہب اور بالخصوص مذہب اسلام تشدد کی تعلیم نہیں دیتا۔

ان کے مطابق حملہ آوروں کا تعلق ایسے انتہاپسند گروہوں سے ہے، جو تشدد کے راستے پر چل کر مسائل کا حل تلاش کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔

سیاسی رہنماؤں کی مذمت

سیاسی رہنما بھی واقعے کی مذمت کر رہے ہیں۔ حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کے رہنما راہل گاندھی، سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو، بہوجن سماج پارٹی کی صدر مایاوتی، آل انڈیا مجلس اتحا دالمسلمین کے صدر اسد الدین اویسی سمیت متعدد سیاسی شخصیات نے مذمتی بیانات جاری کیے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ بی جے پی اور کانگریس نے ایک دوسرے پر الزام تراشی بھی شروع کر دی ہے۔

بی جے پی کا الزام ہے کہ یہ واقعہ راجستھان کی کانگریس حکومت کی مسلمانوں کو خوش کرنے کی پالیسی کا نتیجہ ہے۔

دوسری جانب کانگریس کا الزام ہے کہ بی جے پی نے ملک میں مذہبی منافرت کی سیاست شروع کی ہے اور وہی ایسی چیزوں کو آگے بڑھا رہی ہے۔

ہندو درزی کے قتل کی اطلاع سامنے آتے ہی علاقے میں پر تشدد احتجاج شروع ہو گیا تھا۔
ہندو درزی کے قتل کی اطلاع سامنے آتے ہی علاقے میں پر تشدد احتجاج شروع ہو گیا تھا۔

کانگریس اور بعض مسلم جماعتوں نے وزیرِ اعظم نریندر مودی سے اپیل کی ہے کہ وہ مذہبی منافرت کی سیاست پر پابندی لگائیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG