رسائی کے لنکس

پاک افغان تعلقات میں بہتری کے اشارے


پاکستان اور افغانستان کی اعلیٰ فوجی قیادت کے درمیان مذاکرات ۔ نومبر 2017
پاکستان اور افغانستان کی اعلیٰ فوجی قیادت کے درمیان مذاکرات ۔ نومبر 2017

پاکستان اور افغانستان دونوں ملکوں کے درمیان سیکیورٹی تعاون کو بہتر بنانے کے لیے اپنے فوجی ہیڈکوارٹرز میں رابطہ کار افسر تعنیات کرنے پر متفق ہو گئے ہیں۔ جب کہ اسلام آباد وسیع تر بات چیت شروع کرنے کی اپنی تجویز پر کابل کے جواب کا انتظار کر رہا ہے۔

پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے اپنی ہفتہ وار نیوبریفنگ میں دونوں ملکوں کے درمیان بداعتمادی اور شکوک و شہبات پر مبنی روایتی تعلقات میں شاذ و نادر ہونے والی مثبت پیش رفت کا ذکر کیا۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے 25 نومبر افغان عہدے داروں کے ساتھ پاک افغان ایکشن پلان برائے استحکام یعنی اے پی اے پی ایس شیئر کیا تھا۔ اس پروگرام میں دونوں ملکوں کے درمیان سیاست، معیشت، فوج اور انٹیلی جینس کے تبادلوں پر مبنی تعمیری اور بامقصد تعاون کے لیے ورکنگ گروپس بنانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

اگرچہ افغان حکومت نے ابھی تک کھلے عام پاکستانی تجویز پر بات نہیں کی لیکن پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے افغان صدر اشرف غنی اس حالیہ بیان کا خیرمقدم کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہیں پاکستان کی جانب سے ایک مسوده موصول ہوا ہے جو دوطرفہ بات چیت کی بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔

ترجمان نے دونوں ملکوں کی اعلیٰ فوجی قیادتوں کے درمیان 30 نومبر کے مذاکرات کا بھی حوالہ دیا جس کی میزبانی پاکستان نے کی تھی۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان 26 سو کلومیٹر کی مشترکہ سرحد ہے جس کے بڑے حصے پر حفاظتی اور جانچ پڑتال کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے اور دونوں ملک اکثر اوقات ایک دوسرے پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ ان کے علاقوں میں دہشت گرد کارروائیاں کرنے والے عسکریت پسندوں کو جانے سے روک نہیں رہا۔

کابل کا کہنا ہے کہ پاکستان میں طالبان کے محفوظ ٹھکانے افغان جنگ کو طول دے رہیں ۔ جب کہ اسلا م آبادیہ الزام لگاتا ہے کہ پاکستان مخالف عسکری گروپس دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے سرحد پار افغان علاقے استعمال کرتے ہیں۔

پاکستانی ترجمان نے ایک حالیہ امریکی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کا 43 فی صد سے زیادہ علاقہ یا تو کابل کے کنٹرول میں نہیں ہے یا پھر وہاں قبضے کے حصول کی جنگ ہو رہی ہے۔

پاکستان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں موجود افغان پناہ گزین، افغان طالبان اور ملک کے اندر ریاست مخالف عناصر کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کررہے ہیں۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ افغان پناہ گزینوں کی اپنے وطن واپسی اور سرحدی جانچ پڑتال اور سیکیورٹی کا نظام مضبوط کیے بغیر دہشت گردوں کی مداخلت باہمی کشیدگیوں کا باعث بنتی رہے گی۔

XS
SM
MD
LG