پاکستان اور ایران نے معاشی و اقتصادی تعلقات کے فروغ کے لیے پاک ایران مشترکہ چیمبر آف کامرس قائم کیا ہے۔
رواں سال اپریل میں ایران کے صدر حسن روحانی کے دورہ پاکستان کے دوران دونوں ملکوں نے دوطرفہ تجارت کے پانچ سالہ لائحہ عمل پر اتفاق کیا تھا، جس کے تحت دو طرفہ تجارت کو 2021 تک پانچ ارب ڈالر سالانہ تک بڑھانے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
صدر روحانی کے دورہ پاکستان کے موقع پر پاکستان ایران چیمبر آف کامرس کی تشکیل کے لیے ایک مفاہمتی یاداشت پر بھی دستخط کیے گئے تھے اور اسی سلسلے میں رواں ہفتے پاکستان ایران چیمبر آف کامرس قائم کیا گیا۔
پاکستان میں کاروباری برداری کا کہنا ہے کہ ایران پر سے عالمی تعزیرات ہٹنے کے بعد پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت کے شعبے میں تعلقات میں فروغ کے بہت امکانات ہیں۔
پاکستان کے معروف تاجر اور تجزیہ کار امین اکبر ہاشوانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اسلام آباد اور تہران کے درمیان مضبوط تجارتی روابط کا بالعموم دوطرفہ تعلقات پر بھی اثر پڑے گا۔
’’پاکستان اور ایران کے تعلقات کبھی اچھے ہوتے ہیں اور کبھی ان میں سرد مہری آ جاتی ہے۔۔۔۔ تو اگر آپ کو تعلق کو مستحکم بنانا ہو گا تو تجارتی روابط بہت ضروری ہیں۔۔۔۔ نا صرف تاجروں بلکہ حکومتوں اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو بھی آن بورڈ آنا پڑے گا تاکہ مربوط رابطہ قائم کیا جائے۔‘‘
امین اکبر ہاشوانی نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان دوطرفہ تجارت کے فروغ کے واضح امکانات تو ہیں لیکن اُن کے بقول پانچ ارب ڈالر کی سالانہ دوطرفہ تجارت کا ہدف حاصل کرنا آسان نہیں ہو گا۔
’’اس میں بہت محنت کی ضرورت ہے اور دونوں اطراف کے تمام فریقوں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔۔۔۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ آسان ہدف ہو گا۔‘‘
ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق عائد بیشتر عالمی پابندیاں جنوری میں ہٹائے جانے کے بعد پاکستان کے مرکزی بینک نے بھی تمام کمرشل بینکوں اور مالیاتی اداروں کو ایران کے ساتھ لین دین کی اجازت دے دی ہے جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے فروغ کے امکانات مزید بڑھ گئے ہیں۔
پاکستان سے ایران کو بھیجی جانے والی برآمدات میں باسمتی چاول، سنگترہ، پلاسٹک اور ٹیکسٹائل مصنوعات شامل ہیں۔
ہمسایہ ملک ہونے کی وجہ سے زمینی راستے کے ذریعے ایران سے مال کی برآمد اور درآمد بہت آسان اور کم قیمت ہے اور باقاعدہ تجارتی روابط بحال ہونے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کئی دیگر مصنوعات کی تجارت اور ہنر مند افرادی قوت کا تبادلہ شروع ہونے کی بھی توقع ہے۔