اسلام آباد —
پاکستان کی ایک بڑی نقد آور فصل ’کپاس‘ کی بیماریوں کے خاتمے میں مدد فراہم کرنے کے لیے پانچ امریکی سائنسدانوں نے پاکستان کا 10 روزہ دورہ کیا اور مقامی کاشت کاروں اور زراعت کے شعبے سے وابستہ تحقیق کاروں کو اس ضمن میں تکنیکی مدد فراہم کی۔
اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے سے منگل کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ کپاس کے پتوں پر اثرا انداز ہونے والے کرل وائرس (سی ایل سی وی) کا مسئلہ حل کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے سائنسدانوں نے ایک ورکشاپ کا انعقاد بھی کیا۔
کرل وائرس اور کپاس کی فصل کو متاثر کرنے والی دیگر بیماریاں کاشت کاروں کی آمدن میں خاطر خواہ کمی کا سبب بن سکتی ہیں۔
بیان میں امریکہ کے ایگریکلچر قونصلر ٹاڈ ڈرینن نے کہا کہ پاکستان میں بہت سی زندگیوں کا دارومدار زراعت پر ہے اور یہ ملکی معیشت کا ایک اہم جزو ہے۔
’’امریکہ پاکستان میں زراعت کے شعبے، خاص طور پر چھوٹے کاشت کاروں کے لیے پیداوار میں اضافہ کرنے میں مدد فراہم کرنے کا خواہاں ہے۔ کپاس کی فصل کے حوالے سے امریکی اور پاکستانی سائنسدانوں کے درمیان یہ تعاون اس عزم کی ایک مثال ہے۔‘‘
پاکستان میں کسانوں کی ایک نمائندہ تنظیم ایگری فورم کے سربراہ ابراہیم مغل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ زراعت خاص طور پر کپاس کی بیماریوں کے سدباب میں پاک امریکہ تعاون خوش آئند ہے۔
’’پاکستان میں کپاس سالانہ 80 لاکھ ایکڑ رقبے پر کاشت ہوتی ہے۔ جس سے ایک کروڑ پچاس لاکھ روئی کی گانٹھیں پیدا ہوتی ہیں اور تقریباً چار سے پانچ لاکھ ٹن کھانے کا تیل حاصل ہوتا ہے…. کپاس نقد آور فصل کے طور پر پاکستان کی بڑی ہی اہم فصل ہے۔‘‘
ابراہیم مغل نے کہا کہ پاکستان کی برآمدات میں سب سے بڑا حصہ ٹیکسٹائل کی مصنوعات کا ہے اور اس کے لیے کپاس ایک بنیادی جزو ہے۔
امریکی سفارت خانے کے بیان میں کہا گیا کہ کہ زرعی شعبے میں اس کے سائنسدان پاکستان کی دو اہم بڑی فصلوں گندم اور کپاس کی بیماریوں کے خاتمے کے لیے تحقیق کے سلسلے میں دورہ کرتے رہیں گے۔
’’چھوٹے کسان خاص طور پر (کرل وائرس) کی بیماری سے پیدا ہونے والے اقتصادی اثرات کی لپیٹ میں آنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ اس لیے امریکی محکمہ زراعت نے پاکستانی کسانوں کی مدد کرنے کی غرض سے کپاس کی بیماری پر تحقیق کا منصوبہ تیار کیا ہے۔‘‘
امریکہ کے سائنسدانوں نے فیصل آباد اور ملتان میں کپاس کی آزمائشی پیداوار کے مراکز کا دورہ بھی کیا۔ ٹیم نے امریکہ کی مالی معاونت سے حاصل کی جانے والی اس آزمائشی پیداوار کے نتائج کے حوالے سے خوشخبری دی ہے کہ کپاس کی نئی اقسام میں کرل وائرس کے خلاف مزاحمت کی ابتدائی علامات موجود ہیں۔
اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے سے منگل کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ کپاس کے پتوں پر اثرا انداز ہونے والے کرل وائرس (سی ایل سی وی) کا مسئلہ حل کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے سائنسدانوں نے ایک ورکشاپ کا انعقاد بھی کیا۔
کرل وائرس اور کپاس کی فصل کو متاثر کرنے والی دیگر بیماریاں کاشت کاروں کی آمدن میں خاطر خواہ کمی کا سبب بن سکتی ہیں۔
بیان میں امریکہ کے ایگریکلچر قونصلر ٹاڈ ڈرینن نے کہا کہ پاکستان میں بہت سی زندگیوں کا دارومدار زراعت پر ہے اور یہ ملکی معیشت کا ایک اہم جزو ہے۔
’’امریکہ پاکستان میں زراعت کے شعبے، خاص طور پر چھوٹے کاشت کاروں کے لیے پیداوار میں اضافہ کرنے میں مدد فراہم کرنے کا خواہاں ہے۔ کپاس کی فصل کے حوالے سے امریکی اور پاکستانی سائنسدانوں کے درمیان یہ تعاون اس عزم کی ایک مثال ہے۔‘‘
پاکستان میں کسانوں کی ایک نمائندہ تنظیم ایگری فورم کے سربراہ ابراہیم مغل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ زراعت خاص طور پر کپاس کی بیماریوں کے سدباب میں پاک امریکہ تعاون خوش آئند ہے۔
’’پاکستان میں کپاس سالانہ 80 لاکھ ایکڑ رقبے پر کاشت ہوتی ہے۔ جس سے ایک کروڑ پچاس لاکھ روئی کی گانٹھیں پیدا ہوتی ہیں اور تقریباً چار سے پانچ لاکھ ٹن کھانے کا تیل حاصل ہوتا ہے…. کپاس نقد آور فصل کے طور پر پاکستان کی بڑی ہی اہم فصل ہے۔‘‘
ابراہیم مغل نے کہا کہ پاکستان کی برآمدات میں سب سے بڑا حصہ ٹیکسٹائل کی مصنوعات کا ہے اور اس کے لیے کپاس ایک بنیادی جزو ہے۔
امریکی سفارت خانے کے بیان میں کہا گیا کہ کہ زرعی شعبے میں اس کے سائنسدان پاکستان کی دو اہم بڑی فصلوں گندم اور کپاس کی بیماریوں کے خاتمے کے لیے تحقیق کے سلسلے میں دورہ کرتے رہیں گے۔
’’چھوٹے کسان خاص طور پر (کرل وائرس) کی بیماری سے پیدا ہونے والے اقتصادی اثرات کی لپیٹ میں آنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ اس لیے امریکی محکمہ زراعت نے پاکستانی کسانوں کی مدد کرنے کی غرض سے کپاس کی بیماری پر تحقیق کا منصوبہ تیار کیا ہے۔‘‘
امریکہ کے سائنسدانوں نے فیصل آباد اور ملتان میں کپاس کی آزمائشی پیداوار کے مراکز کا دورہ بھی کیا۔ ٹیم نے امریکہ کی مالی معاونت سے حاصل کی جانے والی اس آزمائشی پیداوار کے نتائج کے حوالے سے خوشخبری دی ہے کہ کپاس کی نئی اقسام میں کرل وائرس کے خلاف مزاحمت کی ابتدائی علامات موجود ہیں۔