وائٹ ہاؤس کی جانب سے 2018 کے مالی سال کے بجٹ کا تفصیلی خاکہ جاری کر دیا گیا ہے، جس میں محکمہ خارجہ، دیگر ممالک کو دی جانے والی امداد اور اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی اداروں کو عطیے کے طور پر فراہم کی جانے والی رقوم میں 28 فیصد تک کمی تجویز کی گئی ہے۔
امریکہ کے آئندہ مالی سال میں مجوزہ کمی سے کیا امریکہ کی طرف سے پاکستانی امداد میں کمی واقع ہو گی؟ اور اگر ہو گی تو کس مد میں ہو گی؟، یہ تاحال واضح نہیں ہے۔
پاکستان کے لیے امریکی امداد میں مجوزہ کٹوتی پر تجزیہ کاروں کا ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ عسکری تعاون کی مدد میں فراہم کی جانے والی امداد کو نہیں چھیڑا جائے گا اور مجوزہ کٹوتی معاشی ترقی کے شعبوں کی مد میں فراہم کی جانے والی امداد میں ہو گی۔
لیکن کچھ مبصرین کہتے ہیں کہ ممکنہ کٹوتی کی صورت میں پاکستان کو دفاع کے شعبے میں فراہم کی جانے والی امداد بھی متاثر ہو گی۔
سن 2017ء کے لیے پاکستان کو 742 اعشاریہ 20 ملین ڈالر کی امداد منظور کی گئی تھی۔
اس میں سے 52 فیصد امن و سلامتی کی مد میں، 23 فیصد امداد معاشی شرح نمو میں بہتری کے لیے تھی، جب کہ باقی ماندہ 25 فیصد امداد، انسانی حقوق، تعلیم، سماجی بہبود اور بنیادی انسانی ضروریات اور جمہوریت کے فروغ کے لیے تھی۔
نئی انتظامیہ نے 2018 کے مجوزہ بجٹ میں دفترِ خارجہ اور یو ایس ایڈ کے لیے 25 اعشاریہ 6 ارب ڈالر کی درخواست کی ہے، جو کہ 2017 کے بجٹ میں اسی مد میں مختص رقم سے خاصی کم ہے۔
تاہم بجٹ میں دیگر ممالک میں ممکنہ غیر معمولی صورتحال میں ہنگامی نوعیت کی کاروائیوں کی مد میں بارہ ارب ڈالر مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے، اِن ہنگامی کاروائیوں میں شام، عراق اور افغانستان کی جنگیں شامل ہیں۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے، ’یونائیٹد سٹیٹس انسٹیٹیوٹ آف پیس‘ کے تجزیہ کار معید یوسف کا کہنا ہے کہ ’’امریکی بجٹ کا فیصلہ وائٹ ہاؤس نہیں، بلکہ کانگریس کرتی ہے‘‘۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’’پہلے سے ہی اس بجٹ کے حوالے سے بہت سی آوازیں سنائی دے رہی ہیں، جن میں ری پبلکن ارکان بھی شامل ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ بجٹ جوں کا توں منظور نہیں ہو گا‘‘۔ معید یوسف کے بقول اِس پر ’’زبردست بحث مباحثہ ہو گا‘‘۔
معید کہتے ہیں کہ کانگریس میں بہت سی آوازیں اٹھ رہی ہیں جو پاکستان کی امداد میں کمی لانے کا موجب بن سکتی ہیں ’’بلکہ کچھ تو اِسے بلکل ہی ختم کرنے کی بات کر رہی ہیں۔ اس لیے اگر بات کٹوتیوں تک پہنچتی ہے تو پھر پاکستان کی امداد بھی اس میں شامل ہو گی۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ کہ واشنگٹن میں پاکستان کے خلاف ’’بہت منفی تاثر‘‘ پایا جاتا ہے۔ معید کے بقول ’’حقانی نیٹ ورک (کے خلاف کارروائی) کا حوالہ لیا جائے یا دیگر عسکریت پسند تنظیموں کا، تو امریکہ کو پاکستان کے حوالے سے بہت سے خدشات ہیں‘‘۔
بقول اُن کے ’’زیادہ امکان یہی ہے کہ (ممکنہ کٹوتی) فوجی مد میں ہو۔ اور اس میں شرائط بھی عائد ہوں گی۔ ترقیاتی مد میں پہلے ہی کٹوتیاں ہو چکی ہیں۔ اور شاید امریکہ اور پاکستان کے درمیان اخراجات کے طریقہ کار پر اختلاف ہوں، اس لیے ہو سکتا ہے کہ اس کو بعد دیکھا جائے کہ اس سے کیسے نمٹنا ہے۔‘‘
لیکن ’مِڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ‘ سے وابستہ تجزیہ کار زبیر اقبال کہتے ہیں کہ ’’اگر کٹوتی ہوئی تو وہ معاشی نمو کی مد میں ہوگی نہ عسکری امداد میں‘‘۔
اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ پاکستان کی اسٹریٹیجک اہمیت ہے اور اُن کے بقول ’’اگر ممکنہ کٹوتی کی وجہ سے وہاں ضرورت کے تحت خرچ کی جانے والی رقم کم ہوتی ہے تو اس کے اثرات خطے پر مرتب ہوں گے ۔۔۔ پاکستان میں ایک ناراضگی پیدا ہو گی جو عدم استحکام کا باعث بنے گی‘‘۔ اس لیے ان کا کہنا تھا کہ امداد ممکنہ طور پر ترقیاتی مد میں کم ہو گی۔
بقول اُن کے ’’فوجی امداد کو کم کرنے کے لیے دیگر بہت سے عوامل کو مد نظر رکھنا ہوتا ہے۔ اور کیوں کہ پاکستان اور افغانستان کا معاملہ درمیان میں آ جاتا ہے، اس صورت میں فوجی امداد کو کم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے جو اصل امداد کم کی جائے گی وہ سویلین مد میں ہو گی‘‘۔
زبیر اقبال کہتے ہیں کہ معاشی نمو میں کمی کی صورت میں پاکستان کی معیشت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔
اُن کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان کو ملنے والی (امریکی) امداد بہت کم ہے اور اگر پاکستان میں ترقیاتی اخراجات میں ڈیڑھ، دو سو ملین ڈالر کی کمی بھی ہوتی ہے تو اس سے پاکستان کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، سوائے اُن علاقوں کے جہاں یہ رقم خرچ ہونی تھی‘‘۔
دونوں تجزیہ کار اس بات سے متفق ہیں کہ پاکستان کو ملنے والی امداد میں ممکنہ کمی سے وہاں جاری کاروائیوں اور ترقیاتی کاموں پر زیادہ اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قریبی تعاون رہا ہے تاہم بعض اُمور پر دونوں ملکوں کی رائے مختلف بھی رہی جس سے دوطرفہ تعلقات میں اتار چڑھاؤ بھی آتا رہا۔