امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے پاکستانی قیادت کے ساتھ سرکاری بات چیت کے بعد جمعہ کو اسلام آباد میں طالب علموں، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور کاروباری حلقوں کے نمائندوں کے ساتھ ایک غیر رسمی مذاکرے میں بھی حصہ لیا۔
اس ’ٹاؤن ہال‘ طرز کے ایک گھنٹے کے اجلاس کی کارروائی سرکاری ٹیلی ویژن پی ٹی وی پر براہ راست دیکھائی گئی اور اس کا مقصد پاکستانی عوام تک امریکہ کا یہ پیغام پہنچانا تھا کہ انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے دونوں ملکوں کے تعلقات انتہائی اہم ہیں۔
اپنے ابتدائی کلمات میں ہلری کلنٹن نے پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو انتہائی اہم قرار دیا لیکن اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ باہمی اعتماد کے فقدان کو دور کرنے کے لیے دونوں ملکوں کو ابھی بہت سے منزلیں طے کرنا باقی ہیں۔
تقریب کے شرکا نے ہلری کلنٹن سے خاصے چبتھے ہوئے سوالات پوچھے یا پھر بعض متنازعہ امور پر پاکستان کے بارے میں امریکہ کے نکتہ نظر پر تنقید کی گئی۔
خیبر پختون خواہ ویمن چیمبر کی نمائندہ شمائما نے امریکی وزیر خارجہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ سب جانتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کو ہر مصیبت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور وہ صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے کوششیں بھی کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ اُس ساس کا مانند ہے جو کبھی پاکستان سے مطمئن نہیں ہوتی اور ہرمرتبہ ایک نیا مطالبہ پیش کر دیتی ہے۔
اس جملے پر ہلری کلنٹن خاصی دیر تک بے اختیار قہقے لگاتی رہیں۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ کو پاکستان کی ساس سے مشابہت دینے کی اصطلاح اُنھوں نے پہلے کبھی نہیں سنی اور یہ ایک انتہائی دلچسپ مثال ہے۔ ’’اب جب کہ میں خود بھی ایک ساس ہوں تو اس کا مطلب بخوبی سمجھ سکتی ہیں اس لیے مستقبل میں نجی اور عوامی تقاریب میں اس کردار کو بہتر انداز میں نبھانے کی کوشش کروں گی۔‘‘
انھوں نے کہا کہ ’’ساس ہمیشہ ساس ہوتی ہے لیکن شاید ساسوں کو بھی نئے طور طریقے سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
ہلری کلنٹن نے پاکستانی سول سوسائٹی کے نمائندوں کے طرف سے اٹھائے گئے مسائل اور سوالات کی بنیاد پر حاضرین کو یقین دہانی کرائی کہ آئندہ ہفتے جب وہ امریکی کانگریس کے سامنے پیش ہوں گی تو پاکستان کے نکتہ نظر کو انہتائی دوستانہ انداز اور دیانت داری سے پیش کرنے کی کوشش کریں گی۔
’’میں نے ہمیشہ پاکستان کا ایک اچھا اور دیانتدار دوست بننے کی کوشش کی ہے۔ ضروری نہیں کہ میں جو کہتی ہوں آپ ہمیشہ اُس سے اتفاق بھی کریں لیکن اس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش ہے کہ دونوں ملک ایک ہی راستے پر چلتے رہیں۔‘‘