رسائی کے لنکس

’تنقیدی بیانات پاک امریکہ تعلقات کے لیے نقصان دہ‘


’تنقیدی بیانات پاک امریکہ تعلقات کے لیے نقصان دہ‘
’تنقیدی بیانات پاک امریکہ تعلقات کے لیے نقصان دہ‘

پاکستان میں اراکین پارلیمان نے کہا ہے کہ صدر براک اوباما کی طرف سے پاکستان میں بعض عناصر کے شدت پسندوں کے ساتھ روابط کے الزامات سے افغانستان کے استحکام کی کوششیں متاثر اور پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات مزید بھڑک سکتے ہیں۔

سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین سلیم سیف اللہ خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تنقیدی بیانات سے امریکہ، پاکستان اور افغانستان میں سے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ’’پاکستان حکومت پر دباؤ ہے کہ وہ اس لڑائی سے خود کو باہر نکالے۔‘‘

صدر اوباما نے جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان نے امریکہ کے مفادات کا خیال نا رکھا تو ایسی صورت میں ان کا ملک اسلام آباد کے ساتھ طویل المدتی شراکت داری کے تعلقات کو درست تصور نہیں کرے گا۔

اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ افغانستان میں امریکہ کے مقاصد کے حوالے سے پاکستان گومگوں سی کیفیت کا شکار ہے اور اس کا جھکاؤ مشکوک کرداروں کی جانب ہے۔ صدر اوباما کا کہنا تھا کہ اس بات کے واضح اشارے ہیں کہ پاکستان کے خفیہ اداروں کے کچھ لوگوں کے حقانی نیٹ ورک کے کچھ لوگوں سے رابطے ہیں جو امریکہ کے لیے خطرہ ہیں۔

قومی اسمبلی کی خارجہ امور کمیٹی کے رکن پلوشہ بہرام نے وائس امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مزید اقدامات کے بار بار مطالبوں سے ایسے افراد کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے جنھوں نے اس لڑائی میں قربانیاں دیں ہیں۔

’’پاکستان اپنے زمینی حقائق اور حکمت عملی کے مطابق جتنی کارروائی ضروری سمجھے گا اتنی ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ اس ماحول میں مزید دباؤ ڈالنا دونوں ممالک کے پہلے سے کشیدہ تعلقات میں مزید مشکلات کا سبب بنے گا۔‘‘

پلوشہ بہرام نے پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی مارک گراسیمن کے رواں ہفتے کے اواخر میں متوقع دورہ اسلام آباد کے بارے میں کہا کہ اگر وہ دو طرفہ تعلقات میں بہتری کا پیغام لے کر آئے تو یہ دونوں ملکوں کے لیے فائدہ مند ہو گا۔


’’اگر وہ (مارک گراسمین) مثبت پیغام لے کر آرہے ہیں، پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کرنے اور درجہ حرارت میں کمی کے لیے آ رہے ہیں پھر تو بہتری ہے لیکن اگر دباؤ بڑھانے کے لیے آ رہے ہیں تو ایسی صورت میں بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی ہے۔‘‘

انھوں نے کہا کہ الزامات عائد کرنے کا سلسلہ بند کر کے پاکستان اور امریکہ کو مل بیٹھ کر معاملات کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو باقاعدہ تسلیم کرنا چاہیئے اور جو ہو سکتا ہے وہ تو پاکستان پہلے بھی کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی کرے گا کیوں کہ اس کے مفادات بھی اسی سے جڑے ہوئے ہیں۔‘‘

امریکی صدر براک اوباما نے جمعرات کو ہونے والی نیوز کانفرنس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو امریکہ کا ایک موثر اتحادی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاک افغان سرحد کے قریب علاقوں میں القاعدہ کے خلاف کارروائیوں میں جو کامیابیاں امریکہ کو حاصل ہوئی ہیں وہ پاکستان کی حکومت کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھیں۔

XS
SM
MD
LG