سینیٹ کی امورِ خارجہ کمیٹی کے سربراہ، سینیٹر سلیم سیف اللہ کا کہنا ہے کہ کمیٹی نے ہمیشہ اِس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے بارے میں امریکہ کےخصوصی ایلچی مارک گروسمین اپنے دورہ پاکستان کےدوران کمیٹی کے ارکان سےخطاب کریں اور، اُن کے بقول، پاکستان کے بارے میں اپنے تحفظات بتائیں، کچھ ثبوت دیں۔
اتوار کو ’وائس آف امریکہ‘ کے حالاتِ حاضرہ کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ افغانستان میں دس سال کی جدوجہد میں اگر نیٹو یا امریکہ کو کامیابی نہیں ہوئی، تو اُن کو چاہیئے کہ خود اِس کی انکوائری کریں، یہ نہیں کہ، اُن کے بقول، اِس سارے معاملے کا قصور پاکستان پر دیا جائے۔
مارک گروسمین آئندہ ہفتے علاقے کا دورہ کرنے والے ہیں۔
سلیم سیف اللہ نے کہا کہ اب جب کہ افغانستان سےفوجی انخلا قریب ہے، ایسے میں ہمیں ایک دوسرے پر الزامات لگانے سے گریز کرنا چاہیئے۔ بلکہ، اِس کے برعکس ہمیں افغانستان کے لوگوں کے بارے میں سوچنا چاہیئے، جنھوں نے پچھلے 32سالوں سے جنگیں ہی دیکھی ہیں۔ اُن کے بقول، ایک نسل تباہ ہوگئی ہے، لاکھوں کی تعداد میں وہاں لوگ مرگئے ہیں۔
End Gameسے متعلق ایک سوال پر، سینیٹر سلیم سیف اللہ کا کہنا تھا کہ امریکی انتظامیہ کے اعلان کے مطابق امریکہ 2014ء تک افغانستان سےاپنی فوجیں واپس بلانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اُن کے بقول، امید ہے امریکہ دوبارہ وہ غلطی نہیں کرے گا جو 1989-90ء میں کی گئی تھی جب سویت یونین کو شکست ہوئی، ’کہ جنگ میں اتنے افغان نہیں مرے تھے جتنے کہ اُس کے بعد آپس میں جو جنگیں شروع ہوئی تھیں اُن میں ہلاک ہوئے‘۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی افغانستان کے ساتھ 2200کلومیٹر کی سرحد ملتی ہے ۔ ’ ہم تو چاہیں گے کہ افغانستان میں حالات بہتر ہوں، امن و امان ہو،باہمی کاروبار ہو، تجارت ہو، قومی تعمیرِ نو کا کام ہو۔اگر End Gameمیں ہماری آپس میں بداعتمادی رہی اور یہی خلا رہا، تو اِس کا افغانستان کو نقصان ہوگا، اور پھر یقینا، ً پاکستان کو بھی نقصان پہنچے گا‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ افغانستان کی آئندہ کی حکومت میں ملک کے سارے گروپوں کو مناسب نمائندگی ملے۔
سلیم سیف اللہ نے کہا کہ تین دہائیوں کے دوران جو بربادی ہوئی ہے اُس کی تعمیر نو ایک دِن میں نہیں ہوگی، بلکہ اِس پر وقت لگے گا۔ اُن کےبقول، اگر ہم آپس میں ہی دست و گریباں ہوں گے تو اُس کا نقصان افغانستان و پاکستان، دونوں کو ہوگا۔
بھارت کے بارے میں ایک سوال پر اُن کا کہنا تھا کہ ہندوستان ایک بڑا ملک ہے جسے بھی یقینی طور پر افغانستان کے معاملے میں دلچسپی ہوگی۔ اُن کے بقول، ’بعض لوگ کہتے ہیں کہ بھارت کےلیے تو اچھا ہے کہ یہ جنگ اگلے دس بیس سال چلتی رہے اور پاکستان کی آدھی فوج مغربی سرحدوں پر ہی تعینات رہے‘۔
تاہم، اُنھوں نے کہا کہ اب بھارت کی سوچ میں بھی تبدیلی آرہی ہے، وہ بھی یہی چاہیں گے کہ علاقائی استحکام ہو اور افغانستان میں حالات بہتر ہوں، تاکہ پورے خطے کے حالات بہتر ہوں۔
سلیم سیف اللہ نے کہا کہ ہم دعاگو ہیں، اور یہی ہماری کوشش بھی ہونی چاہیئے، کہ کسی طریقے سے افغانستان کے معاملات طے ہوں اور وہاں کے لوگ آرام کی زندگی گزار سکیں۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: