گزشتہ چند دنوں سے پاک امریکہ تعلقات میں پیدا ہونےو الی پیچیدہ صورتحال کے بعد جہاں دونوں ملکوں میں دونوں ملکوں میں جہاں ایک طرف یہ بحث جاری ہے کہ پاکستانی اداروں کے کسی شدت پسند گروہ کے ساتھ رابطوں کو الزام کی شکل دینے کے لئے یہی وقت کیوں مناسب سمجھا گیا ، جب امریکی فوج کے سربراہ ایڈمرل مائیک ملن اپنے عہدے سے سبکدوش ہونےو الے ہیں ، وہاں ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان کی ویب سائٹ پر جاری کردہ اس بیان کی کوئی اہمیت نہیں کہ حقانی نیٹ ورک پاکستان کے نہیں، بلکہ طالبان کے کنٹرول میں ہے۔
واشنگٹن کے تھنک ٹینک سینٹر آن فارن رلیشنز کے اسکالر ڈینیئل مارکی کا کہناہے کہ طالبان کے دعوی کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
دوسری طرف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران پاکستانی وزیر خارجہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا ذکر کرنے کے ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ امریکہ اور پاکستان کی جانب سے ایک دوسرے پر عدم اعتمادی کے اظہار سے دہشت گرد ہی فائدہ اٹھائیں گے۔
تجزیہ کاروں کو امید ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ مشکلات کے باوجود بھی تعاون کا سلسلہ جاری رہے گا ۔ واشنگٹن کے تھنک ٹینک ہیریٹیج فاؤنڈیشن کی لیساکرٹس کہتی ہیں کہ میں سمجھتی ہوں کہ امریکہ پاکستان سے ایسے اقدامات کا خواہش مند ہے ، جس سے ثابت ہو کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی میں امریکہ کے ساتھ تعاون کرے گا ۔ اور آئی ایس آئی کے ان افراد کے خلاف کارروائی کرے گا ، جنہوں نے افغانستان میں امریکی تنصیبات پر حملوں میں حقانی نیٹ ورک کا ساتھ دیا تھا۔ اب تک ہم نے پاکستانی عہدے داروں کی جانب سے ایسا کوئی اقدام نہیں دیکھا۔
پاک امریکہ تعلقات کی موجودہ نوعیت کا جائزہ لینے کےلیے حکومت پاکستان نے تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے لئے آل پارٹیز کانفرنس طلب کی ہے اور سعودی عرب نے بھی دونوں ملکوں کے درمیان موجودہ کشیدگی ختم کرانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔
ڈینیئل مارکی کا خیال ہے کہ سعودی عرب دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر لانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
دوسری طرف پاکستان کے حالیہ دورے کے دوران چین کے سیکیورٹی امور کے وزیر مینگ جیانگ زو نے پاکستان کو سیکیورٹی اور پولیس کی استعداد بڑھانے کےلیے 12 لاکھ 50 ہزار ڈالرکی امداد کا وعدہ کیاہے ۔
لیسا کرٹس کا کہنا ہےکہ پاکستان کی طرف حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائیوں میں تعاون نہ کیا گیا تو امریکہ کی جانب سے پاکستان کے لیے مختص امدادی رقوم میں کٹوتیاں ہو سکتی ہیں۔ تاہم امریکی محکمہ دفاع نے بعض امریکی اخبارات میں شائع ہونے والی ان رپورٹس کو مسترد کیا ہے کہ ایڈمرل مولن کے بیان کے بارے میں کچھ دفاعی عہدیداروں کو تحفظات تھے ۔
لیکن وائٹ ہاوس کی جانب سے اس بارے میں کسی سوال کا جواب دینے سے گریز کیا گیا ہے ۔
گزشتہ ہفتے کے ایڈمرل مائیک مولن کے بیان کے بعد پرامریکی اخبارات میں شائع ہونےو الی ان رپورٹس کی رد عمل امریکہ میں بھی سامنے آرہا ہے کہ جہاں بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق دفاعی عہدے داروں نے خفیہ طور پر ان کے بیان پر تحفظات کا اظہار ظاہر کیا ہے ۔