افغان سرحد سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی میں گزشتہ جمعہ کو ایک خودکش بم حملے کے بعد مقامی انتظامیہ نے گزشتہ دو روز سے خرلاچی کے مقام پر افغانستان جانے والا راستہ یعنی ’کراسنگ پوائنٹ‘ بند کر رکھا ہے۔
اطلاعات کے مطابق دونوں جانب کی سرحد پر تعینات علاقائی عسکری عہدیداروں کی ملاقات بھی ہوئی، جس میں ’کراسنگ پوائنٹ‘ کھولنے پر بات چیت کی گئی۔
قبائلی انتظامیہ کے مطابق خودکش حملہ آور نے افغان سرحد سے ملحقہ علاقے کرم ایجسنی میں سکیورٹی فورسز کی ایک چوکی پر حملہ کیا، جس میں فرنٹئیر کور کے اہلکار سمیت دو افراد زخمی ہوئے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اطلاعات کے مطابق خودکش حملہ آور افغانستان کی سرحد کی طرف سے پاکستان میں داخل ہوا، تاہم اس دعوے کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
کرم ایجنسی سے افغانستان جانے والے سرحدی راستے کی بندش سے دونوں جانب لوگ اور تاجر پریشان ہیں۔
اس قبائلی علاقے کے طوری قبائلی کے ایک راہنما حاجی فقیر حسن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ خرلاچی ’کراسنگ پوائنٹ‘ کی بندش سے دونوں جانب بہت سے لوگ پھنس گئے ہیں۔
’’بہت سی گاڑیاں جمع ہیں ادھر خواتین بھی ہیں، بچے بھی ہیں۔۔۔ ہوٹلنگ کا بندوبست بھی نہیں ہے سردی بھی ہے ان کو بھی تکلیف ہو رہا ہے، میں نے آج بھی اسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ صاحب کو درخواست کی ان کو بھی احساس تھا۔‘‘
علاقے میں ایک مسافر گاڑی چلانے والے محمد علی کہتے ہیں کہ راستے کی بندش کے باعث پاکستانی جانب لگ بھگ 100 بڑی گاڑیاں جمع ہیں جب کہ اس سے کہیں زیادہ تعداد میں چھوٹی گاڑیاں بھی پھنسی ہوئی ہیں۔
’’دو دن ہو گئے یہ راستہ بند ہے اور ہمارے لیے بھی بہت مشکلات ہیں۔۔۔ تو لوگ سڑکوں پر کھڑے ہیں آپ میڈیا کے ذریعے دیکھ سکتے ہیں بڑی بڑی گاڑیاں کھڑی ہیں کرم ایجنسی کے راستے خرلاچی روڈ پر تقریباً 100 سے زیادہ ہوں گی بڑی گاڑیاں۔‘‘
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سرحدی راستے کے ذریعے تجارتی سامان بھی لایا اور لے جایا جاتا ہے اور ’کراسنگ پوائنٹ‘ کی بندش سے تاجر بھی پریشان ہیں۔
قبائلی راہنماؤں کا کہنا ہے کہ سرحدی راستہ کھولنے کے لیے وہ انتظامیہ سے بات چیت کر رہے ہیں۔
پاکستان کی طرف سے حالیہ مہینوں میں تواتر کے ساتھ یہ کہا جاتا رہا ہے کہ افغانستان سے ملحقہ سرحد کی نگرانی بڑھانے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں اور خاص طور پر ’کراسنگ پوائنٹس‘ کے ذریعے بغیر سفری دستاویزات کے آمد و رفت کو روکا جائے گا۔
حال ہی میں طورخم کے مقام پر پاکستان نے اسی مقصد کے لیے ایک گیٹ تعمیر کیا، جس پر افغانستان کی طرف سے تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا۔