افغان طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ قیادت کے معاملے پر اختلافات دور ہو گئے ہیں اور ملا عمر کے بیٹے اور اُن کے بھائی سمیت اُن کے دیگر رشتہ داروں نے طالبان کے نئے امیر کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔
طالبان کے ایک بیان کے مطابق ملاعمر کے بھائی ملا عبدالمنان اور ملاعمر کے بڑے بیٹے ملا محمد یعقوب نے افغان طالبان کے نئے سربراہ ملا اختر منصور کی حمایت کر دی ہے۔
ملاعمر کے رشتہ داروں تک براہ راست رسائی تو نہیں ہو سکی لیکن خبر رساں ادارے ’روئیٹرز‘ کے مطابق ملاعمر کے بیٹے کے ایک قریبی ساتھی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ آٹھ بنیادی شرائط منظور کیے جانے کے بعد ایک خفیہ تقریب منعقد کی گئی۔
اطلاعات کے مطابق شرائط میں مرکزی مجلس شوریٰ میں اصلاحات یا اس کی تنظیم نو اور اتفاق رائے سے قیادت منتخب کرنا شامل ہے۔
طالبان کے مرکزی ترجمان نے تصدیق کہ جن معاملات پر اتفاق ہوا ہے اُن تبدیلیوں پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
افغان طالبان کے ترجمان کے مطابق ملا اختر منصور اور اُن کے ساتھیوں نے وعدہ کیا ہے کہ ذاتی طور پر فیصلوں کی بجائے صرف مرکزی مجلس شوریٰ ہی کے پاس فیصلہ سازی کا اختیار ہو گا۔
افغان طالبان نے اپنے بانی رہنما ملا عمر کی موت کی تصدیق رواں سال جولائی میں کی تھی۔ تاہم طالبان نے بعد ازاں تسلیم کیا کہ ملا عمر کا انتقال 2013ء میں ہو گیا تھا اور اُن کی موت کی خبر کو مصلحتاً پوشیدہ رکھا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستان کی میزبانی میں طالبان اور افغان حکومت کے عہدیداروں کے درمیان پہلی براہ راست ملاقات اسلام آباد کے قریب سیاحتی مقام مری میں ہوئی تھی، جس میں امریکہ اور چین کے نمائندے بھی شریک تھے۔
افغانستان میں امن و مصالحت کے اسی سلسلے میں مذاکرات کا دوسرا دور بھی پاکستان میں ہی ہونا تھا لیکن عین وقت پر ملا عمر کے انتقال کی خبروں کے بعد یہ دور معطل کر دیا گیا۔
لیکن جب افغان طالبان کی طرف سے ملا اختر منصور کو نیا سربراہ مقرر کیا گیا تو ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب اور کئی دیگر سینئیر طالبان رہنماؤں کی طرف سے اس پر اعتراضات سامنے آئے۔
قیادت ہی کے معاملے پر طالبان کے باہمی اختلافات اور کابل سمیت افغانستان کے مختلف علاقوں میں حالیہ مہینوں میں ہونے والے مہلک حملوں کی وجہ سے افغانستان میں امن و مصالحت کا عمل رک گیا۔
پاکستانی عہدیداروں کی طرف سے اس توقع کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ افغان طالبان کے قیادت کے مسئلے کے حل کے بعد ممکنہ طور پر امن کی کوششیں بحال ہو سکیں گی۔
پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے مختصر گفتگو میں افغان طالبان کی قیادت کے درمیان اختلافات پر تو کوئی تبصرہ نہیں کیا تاہم اُن کا کہنا تھا کہ امن مذاکرات کی بحالی کا فیصلہ افغانستان ہی کو کرنا ہے۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ امن کا عمل افغانوں ہی کی قیادت میں ہونا ہے اور اب اس کی بحالی بھی اُن ہی کی منشا کے مطابق ہو گی۔
پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے چیئرمین اویس خان لغاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کی خواہش ہے کہ افغانستان میں امن و مصالحت کا عمل بحال ہو۔
اُدھر افغانستان کے دارالحکومت کابل کے مغرب میں پغمان میں خودکش کار بم دھماکے میں چار افراد ہلاک اور چالیس سے زائد زخمی ہو گئے۔
مقامی حکام کے مطابق خودکش بمبار نے انتظامیہ کے ایک کمپاؤنڈ کو نشانہ بنایا جس میں ضلعی پولیس اور انتظامیہ کے دفاتر واقع ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ضلع میں جرائم کی تحقیقات کے شعبے کے سربراہ ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔
افغانستان میں حالیہ مہینوں میں بم دھماکوں میں اضافہ ہوا ہے اور اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں پرتشدد کارروائیوں میں رواں سال کے پہلے چھ میں پانچ ہزار افراد ہلاک ہوئے۔