اسلام آباد —
امریکہ میں پاکستان کی سفیر شیری رحمان نے کہا ہے کہ اسلام آباد افغانستان میں اب کسی گروہ یا جماعت کی حمایت نہیں کرتا کیونکہ اس بات کا ادراک ہوچکا ہے کہ وہاں امن کوئی اور نہیں بلکہ صرف افغان ہی لا سکتے ہیں۔
واشگٹن میں اٹلانٹک کونسل میں خطاب کے دوران حکومت کے طرف سے پالیسی بیان دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے حکومت اور فوج میں کوئی دو رائے نہیں۔
سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے وائس آف امریکہ سے بدھ کو گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان برابری کی سطح پر تعلقات استوار کرنے کا خواہاں ہے اور وہاں قیام امن کے لیے کی جانے والی کوششوں سے متعلق ہر ممکن مدد فراہم کرے گا۔
’’ہم نے کبھی نہیں کہا کہ افغانستان ہمارا بیک یارڈ ہے۔ افغانستان ایک خود مختار ملک ہے اور وہاں قیام امن کے لیے ہونے والی کوششیں افغانوں کی زیر قیادت ہی ہونی چاہیئں۔‘‘
پاکستان فوج اور اس کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر الزامات لگائے جاتے ہیں کہ سول حکومت کی پالیسی کے برعکس وہ افغانستان میں اپنا اثرو رسوخ قائم رکھنے کے لیے طالبان کی پشت پناہی کرتے ہیں۔
تاہم سیکرٹری خارجہ کا کہنا تھا ’’پالیسی ملک کی ہوتی ہے۔ پالیسی وزارت خارجہ یا ملٹری کی نہیں ہوتی۔ اس کے لیے ایک عمل ہوتا ہے جس میں ہر کوئی اپنا نقطہ نظر پیش کرتا ہے جس کی بناء پر پالیسی مرتب کی جاتی ہے۔ ہماری یہ پالیسی قومی پالیسی ہے۔‘‘
پاکستانی سفیر شیری رحمان نے اپنی تقریر میں اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ اگر افغان بحران کا حل مذاکرات کے ذریعے نہ ہوا اور امریکی افواج کا افغانستان سے انخلاء ہوگیا تو اس کے پاکستان کے لیے سنگین نتائج ہوں گے۔
حزب اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قانون ساز سابق جنرل عبدالقادر بلوچ کہتے ہیں کہ افغانستان سے واپسی سے پہلے امریکہ وہاں ایسا نظام متعارف کرائے جس سے دوبارہ خانہ جنگی نہ شروع ہو۔
’’افغانستان میں طالبان ہیں جو کہ پشتون ہیں اور دوسری جانب وہ آبادی ہے جو سیکولر یا ترقی پسندانہ نظام چاہتے ہیں۔ امریکہ کیونکہ وہاں موجود ہے اس لیے ان تمام باتوں کو پیش نظر رکھ کر ایک ایسا نظام لائے جس میں ان تمام مذہبی و نسلی گروہوں کی خواہشات کو پورا کیا جا سکے۔‘‘
امریکہ آئندہ سال کے اواخر تک افغانستان سے اپنی افواج کا انخلاء کا اعلان کر رکھا ہے۔ افغانستان میں جاری مصالحتی عمل میں پیش رفت کے لیے پاکستان کی جانب سے دو درجن سے زائد طالبان کو رہا کیا جا چکا ہے جبکہ مذاکرات کے لیے طالبان رہنماؤں کو محفوط راہداری بھی دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
واشگٹن میں اٹلانٹک کونسل میں خطاب کے دوران حکومت کے طرف سے پالیسی بیان دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے حکومت اور فوج میں کوئی دو رائے نہیں۔
سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے وائس آف امریکہ سے بدھ کو گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان برابری کی سطح پر تعلقات استوار کرنے کا خواہاں ہے اور وہاں قیام امن کے لیے کی جانے والی کوششوں سے متعلق ہر ممکن مدد فراہم کرے گا۔
’’ہم نے کبھی نہیں کہا کہ افغانستان ہمارا بیک یارڈ ہے۔ افغانستان ایک خود مختار ملک ہے اور وہاں قیام امن کے لیے ہونے والی کوششیں افغانوں کی زیر قیادت ہی ہونی چاہیئں۔‘‘
پاکستان فوج اور اس کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر الزامات لگائے جاتے ہیں کہ سول حکومت کی پالیسی کے برعکس وہ افغانستان میں اپنا اثرو رسوخ قائم رکھنے کے لیے طالبان کی پشت پناہی کرتے ہیں۔
تاہم سیکرٹری خارجہ کا کہنا تھا ’’پالیسی ملک کی ہوتی ہے۔ پالیسی وزارت خارجہ یا ملٹری کی نہیں ہوتی۔ اس کے لیے ایک عمل ہوتا ہے جس میں ہر کوئی اپنا نقطہ نظر پیش کرتا ہے جس کی بناء پر پالیسی مرتب کی جاتی ہے۔ ہماری یہ پالیسی قومی پالیسی ہے۔‘‘
پاکستانی سفیر شیری رحمان نے اپنی تقریر میں اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ اگر افغان بحران کا حل مذاکرات کے ذریعے نہ ہوا اور امریکی افواج کا افغانستان سے انخلاء ہوگیا تو اس کے پاکستان کے لیے سنگین نتائج ہوں گے۔
حزب اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قانون ساز سابق جنرل عبدالقادر بلوچ کہتے ہیں کہ افغانستان سے واپسی سے پہلے امریکہ وہاں ایسا نظام متعارف کرائے جس سے دوبارہ خانہ جنگی نہ شروع ہو۔
’’افغانستان میں طالبان ہیں جو کہ پشتون ہیں اور دوسری جانب وہ آبادی ہے جو سیکولر یا ترقی پسندانہ نظام چاہتے ہیں۔ امریکہ کیونکہ وہاں موجود ہے اس لیے ان تمام باتوں کو پیش نظر رکھ کر ایک ایسا نظام لائے جس میں ان تمام مذہبی و نسلی گروہوں کی خواہشات کو پورا کیا جا سکے۔‘‘
امریکہ آئندہ سال کے اواخر تک افغانستان سے اپنی افواج کا انخلاء کا اعلان کر رکھا ہے۔ افغانستان میں جاری مصالحتی عمل میں پیش رفت کے لیے پاکستان کی جانب سے دو درجن سے زائد طالبان کو رہا کیا جا چکا ہے جبکہ مذاکرات کے لیے طالبان رہنماؤں کو محفوط راہداری بھی دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔