اسلام آباد —
وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور اور قومی سلامتی سرتاج عزیز اتوار کو کابل روانہ ہوئے جہاں افغان حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں افغانستان سے متعلق نواز شریف حکومت کی پالیسی اور وہاں ہونے والے مصالحتی عمل میں اسلام آباد کے کردار کے بارے میں بات چیت ہوگی۔
وزارت خارجہ کے حکام کے مطابق ایک روزہ دورے کے دوران سرتاج عزیز خارجہ اور کامرس کے افغان وزراء کے علاوہ صدر حامد کرزئی سے بھی ملاقات کریں گے اور انہیں وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے پاکستان دورے کی باضابطہ دعوت دیں گے۔
کابل روانگی سے قبل سرکاری ٹی وی سے گفتگو میں وزیراعظم کے مشیر کا کہنا تھا کہ ان کے دورے کا مقصد ’’ایک طرف تو افغانستان میں امن اور مصالتی عمل میں مدد کرنا اور دوسری طرف تجارتی اور کاروباری تعلقات کو فروغ دینا ہے۔‘‘
حالیہ مہینوں میں دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات میں گشیدگی دیکھنے میں آئی ہے اور بالخصوص کابل کی طرف سے افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو متاثر کرنے سے متعلق اسلام آباد پر الزامات لگائے گئے ہیں۔
افغان صدر کے ترجمان نے سرتاج عزیز پر بھی الزام عائد کیا کہ انہوں نے پاکستان سے متصل افغان علاقوں کو طالبان کے زیر اثر دینے کی کابل کو تجویز پیش کی تھی۔ لیکن ان الزامات کی پاکستان کی جانب سے تردید کی گئی۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ ’’ہماری پالیسی ہے کہ افغانستان میں کوئی مداخلت نہیں کرنی اور نا ہی کسی ایک مخصوص دھڑے کی حمایت کرنی ہے تو میں امید کرتا ہوں کہ ہم اس پالیسی کا نفاذ ممکن بنا سکے گے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ وہ کابل میں اپنی ملاقاتوں مین بھی افغان حکام کو اس پالیسی کی تخلیقی عمل کو وضع کرنے کی کوشش کریں گے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کے بارے میں موجودہ حکومت کی پالیسی پاکستان پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کی پالیسی کا تسلسل ہے جو کہ ایک خوش آئند قدم ہے۔
سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ افغانستان پاکستان کے درمیان تعلقات میں بہتری ہی سے خطے میں امن و سلامتی ممکن ہے۔
’’ان کے تعلقات میں خرابی غیر فطری ہے اور جب بھی یہ خرابی آئی ہے بیرونی مداخلت کی وجہ سے آئی ہے۔ ان میں زبان، تاریخ، ثقافت، جغرافیائی اور مذہب کے مضبوط تعلق ہیں۔ حتیٰ کہ قبرستان بھی مشترکہ ہیں تو یہ عام فہم اور اصولی بات ہے کہ ان کے تعلقات اگر بہت زیادہ برادرانہ نہیں تو معمول پر تو رہنے چاہیں۔‘‘
امریکہ اور اس کے دیگر اتحادی ممالک کے حکام نے بار ہا بیانات میں افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کے کردار کی غیر معمولی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔
وزارت خارجہ کے حکام کے مطابق ایک روزہ دورے کے دوران سرتاج عزیز خارجہ اور کامرس کے افغان وزراء کے علاوہ صدر حامد کرزئی سے بھی ملاقات کریں گے اور انہیں وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے پاکستان دورے کی باضابطہ دعوت دیں گے۔
کابل روانگی سے قبل سرکاری ٹی وی سے گفتگو میں وزیراعظم کے مشیر کا کہنا تھا کہ ان کے دورے کا مقصد ’’ایک طرف تو افغانستان میں امن اور مصالتی عمل میں مدد کرنا اور دوسری طرف تجارتی اور کاروباری تعلقات کو فروغ دینا ہے۔‘‘
حالیہ مہینوں میں دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات میں گشیدگی دیکھنے میں آئی ہے اور بالخصوص کابل کی طرف سے افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو متاثر کرنے سے متعلق اسلام آباد پر الزامات لگائے گئے ہیں۔
افغان صدر کے ترجمان نے سرتاج عزیز پر بھی الزام عائد کیا کہ انہوں نے پاکستان سے متصل افغان علاقوں کو طالبان کے زیر اثر دینے کی کابل کو تجویز پیش کی تھی۔ لیکن ان الزامات کی پاکستان کی جانب سے تردید کی گئی۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ ’’ہماری پالیسی ہے کہ افغانستان میں کوئی مداخلت نہیں کرنی اور نا ہی کسی ایک مخصوص دھڑے کی حمایت کرنی ہے تو میں امید کرتا ہوں کہ ہم اس پالیسی کا نفاذ ممکن بنا سکے گے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ وہ کابل میں اپنی ملاقاتوں مین بھی افغان حکام کو اس پالیسی کی تخلیقی عمل کو وضع کرنے کی کوشش کریں گے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کے بارے میں موجودہ حکومت کی پالیسی پاکستان پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کی پالیسی کا تسلسل ہے جو کہ ایک خوش آئند قدم ہے۔
سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ افغانستان پاکستان کے درمیان تعلقات میں بہتری ہی سے خطے میں امن و سلامتی ممکن ہے۔
’’ان کے تعلقات میں خرابی غیر فطری ہے اور جب بھی یہ خرابی آئی ہے بیرونی مداخلت کی وجہ سے آئی ہے۔ ان میں زبان، تاریخ، ثقافت، جغرافیائی اور مذہب کے مضبوط تعلق ہیں۔ حتیٰ کہ قبرستان بھی مشترکہ ہیں تو یہ عام فہم اور اصولی بات ہے کہ ان کے تعلقات اگر بہت زیادہ برادرانہ نہیں تو معمول پر تو رہنے چاہیں۔‘‘
امریکہ اور اس کے دیگر اتحادی ممالک کے حکام نے بار ہا بیانات میں افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کے کردار کی غیر معمولی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔