اسلام آباد —
پاکستان نے سرحد پار افغانستان سے گولہ باری پر احتجاج کرتے ہوئے ایسی کارروائیوں کو خطے میں امن و استحکام کی کوششوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔
پاکستانی حکام نے کہا ہے کہ افغان نیشنل آرمی نے بھاری توپ خانے سے بلا اشتعال فائرنگ اتوار کی شام قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں کی جس میں دو بچوں سمیت چار شہری ہلاک ہو گئے۔
افغان نیشنل آرمی کی طرف سے سرحد پار گولہ باری کا واقعہ ایسے وقت پیش آیا ہے جب افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کے سربراہ صلاح الدین ربانی پاکستانی حکام کے ساتھ افغان امن و مفاہمت کے عمل کو فروغ دینے پر بات چیت کے لیے پیر کو اسلام آباد پہنچے ہیں۔
عسکری حکام کے مطابق وادی شوال کے نزنرائی گاؤں میں مقامی باشندے لکڑیاں جمع کرنے کے بعد جب انھیں گاڑی میں لاد رہے تھے تو عین اُس وقت سرحد پار سے داغے گئے گولوں کی زد میں آ گئے۔
خارجہ سیکرٹری جلیل عباس جیلانی نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی کارروائیاں نقصان دہ اور غیر مفید ہیں، جبکہ ان کی وجہ سے خطے میں امن و استحکام کے فروغ کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کی پاکستان کی کوششیں بھی متاثر ہوں گی۔
اُنھوں نے اسلام آباد میں افغانستان کے سفیر کو پاکستان کی اس تشویش سے آگاہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ افغان حکومت مستقبل میں ایسے واقعات کے سدباب کے لیے مناسب اقدامات کرے۔
جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ سرحد پار سے گولہ باری اور دیگر دراندازیوں کے مکمل خاتمے کے لیے اس معاملے کو افغانستان کے ساتھ ہر سطح پر اٹھایا جائے گا۔
خارجہ سیکرٹری جلیل عباس جیلانی نے صحافیوں سے گفتگو میں افغان وفد کی آمد کو اہم پیش رفت قرار دیا۔
’’افغانستان میں امن اور استحکام کے لیے جو کوششیں کی جا رہی ہیں ان پر بات چیت ہو گی۔ ہم نے پہلے بھی بار ہا کہا ہے کہ پاکستان ہر ممکن کوشش کرے گا کہ افغانستان کے امن و استحکام کے لیے جو کچھ بھی ممکن ہوا وہ کیا جائے گا۔ مصالحت کے عمل کو آگے بڑھانے میں پاکستان کس طرح افغانستان کی مدد کر سکتا ہے اس پر بھی بات کی جائے گی۔‘‘
افغان وفد کے ارکان نے اسلام آباد آمد کے بعد وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سے ملاقات کی جس میں خطے میں امن و استحکام سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ملاقات کے بعد جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان کے مطابق سرحد پار سے گولہ باری کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔
بیان میں کہا گیا کہ وزیر اعظم پرویز اشرف اور افغان امن کونسل کے سربراہ صلاح الدین ربانی نے دونوں ملکوں کے درمیان روابط بڑھانے پر اتفاق کیا ہے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات کو روکا جا سکے۔
پاکستانی وزیر اعظم نے کہا کہ دونوں ملکوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ نسلوں کو خوشگوار اور پرامن تعلقات ورثے میں ملیں۔
بعد ازاں افغان وفد نے وزیر خارجہ حنا ربانی کھر سے باضابطہ مذاکرات بھی کیے۔
افغان اعلٰی امن کونسل کے وفد کا دورہ گزشتہ ماہ متوقع تھا لیکن بظاہر سرحدی دراندازی پر کشیدگی کے باعث اسے ملتوی کر دیا گیا تھا۔
پاکستانی حکام کا الزام ہے کہ سوات اور قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن سے فرار ہو کر افغانستان کے سرحدی صوبوں میں پناہ لینے والے طالبان جنگجو سرحدی اہداف پر حملے کرتے ہیں جبکہ افغانوں کا الزام ہے کہ پاکستانی فوج بلا اشتعال اُن کے علاقوں پر فائرنگ کرتی ہے۔
تاہم حالیہ دنوں میں دونوں جانب سے ان الزامات میں نمایاں کمی آئی ہے جو پاکستانی حکام کے بقول ان کی شکایت پر دراندازیوں کو روکنے کے لیے افغانستان میں تعینات اتحادی افواج اور افغان حکومت کے اقدامات ہیں۔
پاکستانی حکام نے کہا ہے کہ افغان نیشنل آرمی نے بھاری توپ خانے سے بلا اشتعال فائرنگ اتوار کی شام قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں کی جس میں دو بچوں سمیت چار شہری ہلاک ہو گئے۔
افغان نیشنل آرمی کی طرف سے سرحد پار گولہ باری کا واقعہ ایسے وقت پیش آیا ہے جب افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کے سربراہ صلاح الدین ربانی پاکستانی حکام کے ساتھ افغان امن و مفاہمت کے عمل کو فروغ دینے پر بات چیت کے لیے پیر کو اسلام آباد پہنچے ہیں۔
عسکری حکام کے مطابق وادی شوال کے نزنرائی گاؤں میں مقامی باشندے لکڑیاں جمع کرنے کے بعد جب انھیں گاڑی میں لاد رہے تھے تو عین اُس وقت سرحد پار سے داغے گئے گولوں کی زد میں آ گئے۔
خارجہ سیکرٹری جلیل عباس جیلانی نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی کارروائیاں نقصان دہ اور غیر مفید ہیں، جبکہ ان کی وجہ سے خطے میں امن و استحکام کے فروغ کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کی پاکستان کی کوششیں بھی متاثر ہوں گی۔
اُنھوں نے اسلام آباد میں افغانستان کے سفیر کو پاکستان کی اس تشویش سے آگاہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ افغان حکومت مستقبل میں ایسے واقعات کے سدباب کے لیے مناسب اقدامات کرے۔
جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ سرحد پار سے گولہ باری اور دیگر دراندازیوں کے مکمل خاتمے کے لیے اس معاملے کو افغانستان کے ساتھ ہر سطح پر اٹھایا جائے گا۔
خارجہ سیکرٹری جلیل عباس جیلانی نے صحافیوں سے گفتگو میں افغان وفد کی آمد کو اہم پیش رفت قرار دیا۔
’’افغانستان میں امن اور استحکام کے لیے جو کوششیں کی جا رہی ہیں ان پر بات چیت ہو گی۔ ہم نے پہلے بھی بار ہا کہا ہے کہ پاکستان ہر ممکن کوشش کرے گا کہ افغانستان کے امن و استحکام کے لیے جو کچھ بھی ممکن ہوا وہ کیا جائے گا۔ مصالحت کے عمل کو آگے بڑھانے میں پاکستان کس طرح افغانستان کی مدد کر سکتا ہے اس پر بھی بات کی جائے گی۔‘‘
افغان وفد کے ارکان نے اسلام آباد آمد کے بعد وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سے ملاقات کی جس میں خطے میں امن و استحکام سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ملاقات کے بعد جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان کے مطابق سرحد پار سے گولہ باری کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔
بیان میں کہا گیا کہ وزیر اعظم پرویز اشرف اور افغان امن کونسل کے سربراہ صلاح الدین ربانی نے دونوں ملکوں کے درمیان روابط بڑھانے پر اتفاق کیا ہے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات کو روکا جا سکے۔
پاکستانی وزیر اعظم نے کہا کہ دونوں ملکوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ نسلوں کو خوشگوار اور پرامن تعلقات ورثے میں ملیں۔
بعد ازاں افغان وفد نے وزیر خارجہ حنا ربانی کھر سے باضابطہ مذاکرات بھی کیے۔
افغان اعلٰی امن کونسل کے وفد کا دورہ گزشتہ ماہ متوقع تھا لیکن بظاہر سرحدی دراندازی پر کشیدگی کے باعث اسے ملتوی کر دیا گیا تھا۔
پاکستانی حکام کا الزام ہے کہ سوات اور قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن سے فرار ہو کر افغانستان کے سرحدی صوبوں میں پناہ لینے والے طالبان جنگجو سرحدی اہداف پر حملے کرتے ہیں جبکہ افغانوں کا الزام ہے کہ پاکستانی فوج بلا اشتعال اُن کے علاقوں پر فائرنگ کرتی ہے۔
تاہم حالیہ دنوں میں دونوں جانب سے ان الزامات میں نمایاں کمی آئی ہے جو پاکستانی حکام کے بقول ان کی شکایت پر دراندازیوں کو روکنے کے لیے افغانستان میں تعینات اتحادی افواج اور افغان حکومت کے اقدامات ہیں۔