پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان کے صدر اشرف غنی کو بتایا ہے کہ پاکستانی فوجیوں نے اپنی سر زمین سے دہشت گردوں کی "تمام پناہ گاہیں" ختم کر دی ہیں اور ضرورت اس امر کی ہے کہ سرحد کے آر پار دہشت گردوں کی نقل و حرکت سے نمٹنے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان سکیورٹی کے شعبے میں تعاون کیا جائے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ "آئی ایس پی آر" سے جاری ایک بیان کے مطابق اتوار کو جنرل باجوہ نے افغان صدر غنی کو ٹیلی فون کیا جس میں انھوں نے حالیہ دہشت گرد حملوں میں ہونے والے نقصانات پر تعزیت کا اظہار کیا۔
گزشتہ منگل کو کابل سمیت مختلف افغان شہروں میں ہونے والے بم حملوں میں 50 سے زائد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔ مرنے والوں میں متحدہ عرب امارات کے پانچ سفارتکار بھی شامل تھے۔
افغان حکام اور سیاست دانوں نے ایک بار پھر پاکستانی فوج کی انٹیلی جنس پر یہ کہہ کر انگشت نمائی کی ہے کہ وہ ان حملوں کے لیے طالبان عسکریت پسندوں کی مدد کر رہی ہے۔
کابل یہ الزام عائد کرتا ہے کہ طالبان عسکریت پسند پاکستانی سرزمین پر اپنی آماجگاہوں کو افغانستان میں مہلک حملوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اسلام آباد ان دعوؤں کو مسترد کرتا ہے۔
پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بیان میں کہا کہ جنرل باجوہ نے صدر غنی کو بتایا کہ الزام تراشی سے خطے کی سلامتی کے "دشمن عناصر" کو تقویت ملتی ہے۔
"انھوں (جنرل باجوہ) نے زور دیا کہ پاکستان نے ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ میں طویل سفر طے کیا ہے اور اس دوران (دہشت گردوں کی) تمام پناہ گاہوں کو ختم کر دیا گیا۔"
پاکستانی فوج کے سربراہ نے اپنے ملک کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ سرحد کے دونوں جانب دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے سرحد کی موثر نگرانی کا نظام اور انٹیلیجنس کے شعبے میں بھرپور تعاون کی ضرورت ہے۔