پاکستان نے ناراض بلوچ رہنما براہمداغ بگٹی کو ملک میں واپس لانے کے لیے بین الاقوامی پولیس ’انٹرپول‘ سے رابطے کا فیصلہ کیا ہے۔
سوئیٹزرلینڈ میں مقیم براہمداغ بگٹی کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے جمعہ کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اُنھیں واپس لانے کے لیے باضابطہ کوشش کی جائے گی۔
’’حکومت بھی اپنا ہوم ورک کر رہی ہے اور آئندہ چند دنوں میں باقاعدہ انٹرپول کو (وفاقی تحقیقات ادارے) ایف آئی اے کے ذریعے خط لکھ رہے ہیں۔۔۔ باقاعدہ ریفرنس بھیج رہے ہیں کہ اُن کو پاکستان واپس لانے کے اقدامات کیے جائیں۔‘‘
یہ اعلان ایسے وقت سامنے آیا جب حالیہ ہفتوں میں ذرائع ابلاغ میں ایسی خبریں سامنے آئی تھیں کہ براہمداغ بگٹی بھارت میں سیاسی پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور بھارت اُن کی درخواست پر غور کر رہا ہے۔
براہمداغ بگٹی قوم پرست مرحوم بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کے پوتے ہیں اور 2010 سے خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
نواب اکبر بگٹی 2006 میں بلوچستان کے علاقے کوہلو میں جاری ایک فوج کارروائی کے دوران ایک غار میں اپنے ساتھیوں سمیت مارے گئے تھے۔
براہمداغ بلوچستان کی علیحدگی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں اور حال ہی میں اُنھوں نے اپنے ایک بیان میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی طرف سے بلوچستان کا مسئلہ اٹھانے کے معاملے کا خیر مقدم کیا تھا۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ ماہ بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر اپنی تقریر میں بلوچستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کا معاملہ اٹھایا تھا۔
پاکستان کا یہ الزام رہا ہے کہ بھارت بلوچستان میں عسکریت پسندی کے واقعات میں ملوث ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ براہمداغ بگٹی کی بھارت میں سیاسی پناہ کی خبروں سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ اُنھیں بھارت کی حمایت حاصل رہی ہے۔
’’اب کوئی شک رہا نہیں، جو کچھ مودی صاحب نے کہا بلوچستان کے بارے میں۔۔۔ مگر اُس کے بعد براہمداغ بگٹی کے بارے میں جو اُن کے خیالات اور یہ تجویز آئی اس سے تو بات روز روشن کی طرح عیاں ہونی چاہیئے کہ اس دہشت گردی کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔‘‘
بلوچستان میں مداخلت سے متعلق الزامات کو بھارت سختی سے مسترد کرتا رہا ہے۔
پاکستان کی طرف سے براہمداغ بگٹی اور مری قبیلے کے سرکردہ راہنما حیربیار مری سمیت دیگر ناراض بلوچ رہنماؤں کو مذاکرات کی پیش کش کی جاتی رہی ہے۔ لیکن حکومت کی طرف سے حالیہ اقدام کے فیصلے سے یہ لگتا ہے کہ اب بات چیت شاید ممکن نہیں۔