رسائی کے لنکس

بلوچستان یونیورسٹی کا مالی بحران شدید، اساتذہ سراپا احتجاج


بلوچستان یونیورسٹی
بلوچستان یونیورسٹی

اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قوم کے مستقبل کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے والے اساتذہ نے ہاتھوں میں کشکول اٹھا کر کوئٹہ میں ایک ریلی نکالی اور شہریوں سے خیرات کا مطالبہ کرتے نظر آئے۔

پاکستان کے جنوب مغربی صوبے کی سب سے بڑی درسگاہ بلوچستان یونیورسٹی کا مالی بحران شدت اختیار کرچکا ہے اور اس کے اساتذہ مالی مشکلات کی وجہ سے جاری اپنے احتجاج کو ایک مختلف انداز دینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قوم کے مستقبل کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے والے اساتذہ نے ہاتھوں میں کشکول اٹھا کر کوئٹہ میں ایک ریلی نکالی اور شہریوں سے خیرات کا مطالبہ کرتے نظر آئے۔

یونیورسٹی کے اکیڈیمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر ڈاکٹر کلیم اللہ بڑیچ کہتے ہیں کہ یونیورسٹی کے مالی بحران کے حل کے لیے اساتذہ و دیگر ملازمین نے ایک ماہ تک یونیورسٹی میں دھرنا دیا لیکن اس پر کسی نے توجہ نہ دی اور بالآخر مجبور ہوکر انھوں نے احتجاج کا یہ طریقہ اختیار کیا۔

’’جہاں ہم ٹیکس دیتے ہیں وہاں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ہمیں ہماری خدمات کے بدلے تنخواہیں دے۔ یہ ناممکن ہے کہ میں سروسز دوں، پی ایچ ڈی کر کے میں مفت خدمات دوں تو ایسی دنیا میں کہیں کوئی مثال نہیں۔‘‘

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پروفیسر بڑیچ نے بتایا کہ مارچ میں یونیورسٹی کا نیا سیشن شروع ہونے کے ساتھ ہی صوبائی حکومت، اعلیٰ تعلیم کے سرکاری کمیشن اور یونیورسٹی انتظامیہ کو بتایا گیا تھا کہ آنے والے دنوں میں ادارے کے مسائل بڑھ جائیں گے لیکن اس کے باجود ایچ ای سی نے یونیورسٹی کے فنڈز میں 70 فیصد کٹوتی کردی۔

انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس طرف توجہ نہ دینے کی صورت میں صوبے کی یہ بڑی درسگاہ بند بھی ہوسکتی ہے۔

پروفیسر بڑیچ نے متنبہ کیا کہ اگر ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو اساتذہ اجتماعی طور پر مستعفی ہوجائیں گے جو کہ اس صوبے میں تعلیم کے شعبے کے لیے کسی طور پر سود مند نہیں ہوگا۔

ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یونیورسٹی کے بحران کے حل کے لیے گزشتہ ماہ دو کروڑ روپے دے گئے تھے جب کہ مزید ڈیڑھ کروڑ جاری کیے جارہے ہیں۔
بیان کے مطابق یہ رقم یونیورسٹی کو پہلے دی گئی گرانٹ کے علاوہ ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان کے مشیر برائے تعلیم سردار رضا بڑیچ نے کہا ہے کہ یونیورسٹی کا مالی بحران حل کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔

بلوچستان یونیورسٹی میں 45 سے زائد شعبے ہیں جہاں اس وقت چار ہزار طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ درس وتدریس کے لیے یہاں 500 اساتذہ تھے جن میں سے ایک سو سے زائد مختلف ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے لیے گئے ہوئے ہیں جب کہ 350 سے زائد نے ملک کی دیگر یونیورسٹیوں میں تبادلے کے لیے درخواستیں دے رکھی ہیں۔ یونیورسٹی کے دگر ملازمین کی تعداد 1200 کے قریب ہے۔
XS
SM
MD
LG