رسائی کے لنکس

بلوچستان: بدامنی کے شعبہ تعلیم پر منفی اثرات


ایک سو سے زائد اساتذہ اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک ہیں اور 350 کے قریب اساتذہ ملک کی دوسری یونیورسٹیوں میں جانے یا بلوچستان یونیورسٹی کو مکمل طور پر خیرآباد کہنے کے لیے درخواستیں دے چکے ہیں۔

دہشت گردی اور بدامنی کے شکار جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں جہاں مختلف شعبہ ہائے زندگی متاثر ہوئے ہیں وہیں تعلیم کا شعبہ بھی اس کے منفی اثرات سے نا بچ سکا۔

صوبے کی سب سے بڑی درس گاہ بلوچستان یونیورسٹی کا قیام 1970ء کے عشرے میں ہوا تھا اور یہاں کے فارغ التحصیل طلباء وفاق اور صوبائی سطح پر مختلف محکموں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔

لیکن 2005ء کے بعد اس جامعہ کی صورتحال بدستور دگرگوں ہوتی چلی گئی اور صوبے میں تعلیم کے چراغ روشن کرنے والی اس یونیورسٹی کا اپنا مستقبل اندھیرے میں ڈوبتا جا رہا ہے۔

بلوچستان یونیورسٹی کے اکیڈیمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر کلیم اللہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گزشتہ سات سالوں سے جاری شدت و عسکریت پسندی کے اثرات یہاں نمایاں طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

ان کے بقول ایک خاتون پروفیسر سمیت ایک درجن سے زائد اساتذہ کو ہدف بنا کر قتل کیے جانے کے باعث یونیورسٹی کے درجنوں اساتذہ یہاں سے کسی دوسرے صوبے میں تبادلے کے لیے درخواستیں دے چکے ہیں۔

یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق 2005ء میں یہاں زیر تعلیم طلبا و طالبات کی تعداد لگ بھگ چھ ہزار تھی جن کی درس و تدریس کے لیے پانچ سو اساتذہ موجود تھے۔ لیکن اب طلبا و طالبات کی تعداد بتدریج کم ہوتے ہوئے چار ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔

ایک سو سے زائد اساتذہ اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک ہیں اور 350 کے قریب اساتذہ ملک کی دوسری یونیورسٹیوں میں جانے یا بلوچستان یونیورسٹی کو مکمل طور پر خیرآباد کہنے کے لیے درخواستیں دے چکے ہیں۔



کلیم اللہ بڑیچ نے بتایا کہ ان کی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی والے صرف چند استاد موجود ہیں اور یہ تعداد کسی بھی یونیورسٹی کے مستقبل کے لیے کسی طور بھی صحت افزا نہیں۔

’’یونیورسٹی ایکٹ کے تحت اگر کسی یونیورسٹی کے پاس مختلف شعبوں میں پی ایچ ڈی اساتذہ نہ ہوں تو وہ پی ایچ ڈی یا ایم فل کے کورسز کا اجرا نہیں کرسکتی۔ ہائر ایجوکیشن کیمشن نے اپنے وضع کردہ قوانین کے تحت بلوچستان یونیورسٹی کو ہدایت کی ہے کہ ایسے شعبے جہاں کم ازکم تین پی ایچ ڈی اساتذہ پڑھاتے ہوں وہی شعبہ اس کی اعلیٰ تعلیم دے سکتا ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان یونیورسٹی میں 45 سے زائد شعبے ہیں اور متعدد شعبوں میں پی ایچ ڈی اساتذہ موجود نہیں۔ ان کے بقول پی ایچ ڈی اور ایم فل پروگرامز کے اجراء کے بغیر ’’ اسے یونیورسٹی نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ صرف ایک کالج کہلائے گا۔‘‘

قدرتی وسائل سے مالا مال صوبے کی یہ یونیورسٹی معاشی مسائل کا بھی شکار ہے جس کی وجہ یونیورسٹی کو ملنے والی گرانٹ میں کٹوتی بتائی جاتی ہے۔

کلیم اللہ بڑیچ کا کہنا تھا کہ یہاں کام کرنے والے اساتذہ اور دیگر ملازمین کو وقت پر تنخواہوں کی ادائیگی میں بھی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔

’’ایچ ای سی کی طرف سے داخلہ فیس بڑھانے پر زور دیا جا رہا ہے جب کہ صوبے کے طلبا کی اکثریت کم وسائل کی وجہ سے موجودہ چار ہزار داخلہ فیس بھی پوری طرح ادا نہیں کر پاتی۔‘‘

مالی اور انتظامی امور کے علاوہ امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث سلامتی کے خدشات بھی اس یورنیورسٹی کے مستقبل کے لیے ایک مستقل خطرہ بنے ہوئے ہیں۔



کوئٹہ میں آباد شیعہ ہزارہ برادری کو حالیہ برسوں میں تواتر سے ہلاکت خیز حملوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ فارسی میں دس اساتذہ کا تعلق اسی برادری ہے۔

کلیم اللہ بڑیچ کا کہنا تھا کہ یہ اساتذہ اور اس شعبے میں داخلہ لینے والے طلباء و طالبات سلامتی کے خدشات کے باعث یونیورسٹی نہیں آرہے۔

اکیڈیمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے صدر نے بتایا کہ صوبے کی نئی حکومت نے شعبہ تعلیم کے لیے سالانہ بجٹ میں ساڑھے تین ارب روپے تو مختص کیے ہیں لیکن بلوچستان میں موجود سات یونیورسٹیوں کے لیے یہ رقم ناکافی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت سے تین ارب روپے اعلیٰ تعلیم کے شعبے اور پی ایچ ڈی کرنے والے اساتذہ کو بہتر معاوضہ دینے کی درخواست بھی کی گئی ہے جس پر ان کے بقول انھیں مثبت یقین دہانی کروائی گئی ہے۔
XS
SM
MD
LG