پاکستان اور بنگلہ دیش کی معیشتوں کا اگر ایک تقابلی جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ بنگلہ دیش، جو کبھی پاکستان کا حصہ تھا، معاشی طور پر آج پاکستان کے مقابلے میں بہتر پوزیشن میں ہے۔ اسکی شرح نمو، فی کس آمدنی، غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر اور برآمدات پاکستان سے زیادہ ہیں اور اس کی معیشت بہتر رفتار سے ترقی کر رہی ہے۔
پاکستانی ماہر معاشیات ڈاکٹر ایوب مہر، فیڈریشن آف پاکستان اکنامک کونسل سے وابستہ ہیں۔ اس حوالے سے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر دونوں ملکوں کی معیشتوں کے حجم کو دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ گزشتہ سال کے اختتام پر بنگلہ دیش کی جی ڈی پی یا مجموعی قومی پیداوار تین سو دو بلین ڈالر تھی، جبکہ پاکستان کی جی ڈی پی 275 بلین ڈالر تھی۔
پاکستان میں فی کس آمدنی 1400 ڈالر کے قریب ہے اور بنگلہ دیش میں یہ فی کس آمدنی 1900 ڈالر فی کس سے زیادہ بنتی ہے، اور یوں بنگلہ دیش مجموعی قومی پیداوار میں بھی اور فی کس آمدنی میں بھی پاکستان سے آگے ہے۔ لیکن، انہوں نے کہا کہ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئیے کہ پاکستان کی آبادی بنگلہ دیش سے زیادہ اور مجموعی قومی پیداوار کم ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر توازن تجارت کو دیکھا جائے تو اگر بنگلہ دیش کی برآمدات زیادہ ہیں تو درآمدات بھی اسی حساب سے زیادہ ہیں اور دونوں ملکوں میں اس حوالے سے زیادہ فرق نہیں ہے۔ لیکن بنگلہ دیش کا تجارتی خسارہ دس بلین ڈالر کے قریب ہے جبکہ پاکستان کا تجارتی خسارہ 20 بلین ڈالر سے زیادہ ہوتا ہے۔ اور اس تجارتی عدم توازن کا اثر پاکستان پر شدید ہوتا ہے اور اس کے روپے کی قیمت کھلی منڈی میں گر جاتی ہے۔ اس وقت یہ کوئی 179 روپے فی ڈالر ہے، جب کہ بنگلہ دیشی ٹکے کی قیمت 86 ٹکہ فی ڈالر ہے۔ یعنی بنگلہ دیش کی کرنسی کی قیمت پاکستانی کرنسی کی قیمت سے تقریباً دوگنی ہے۔ اور مجموعی طور پر بنگلہ دیش کی معیشت پاکستان کے مقابلے میں بہت بہتر نظر آتی ہے۔
اس کے اسباب پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کی معیشت میں بہتری 1991 سے آنا شروع ہوئی۔ لیکن یہ کہنا شاید مناسب نہ ہو کہ بنگلہ دیش آگے نکل گیا۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ پاکستان پیچھے رہ گیا، کیونکہ خطے کے دوسرے ممالک یعنی بھارت، سری لنکا، نیپال اور بنگلہ دیش سب کی معیشتیں 1991 کے بعد سے آگے بڑھی ہیں۔ صرف پاکستان پیچھے رہ گیا ہے۔ اسکی بڑی وجہ پاکستان پر قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ اور عالمی منڈی میں محدود رسائی ہے۔
بنگلہ دیش کو خاص طور پر یورپی یونین کے ملکوں میں آسان شرائط پر رسائی حاصل رہی، جس سے وہ آگے بڑھتے چلے گئے۔ دوسری جانب بنگلہ دیش نے اپنے ہاں درمیانے اور چھوٹے برآمد کنندگان کی حوصلہ افزائی کی جس سے انکی تعداد بڑھی۔ ان سب کی برآمدات مل کر برآمدات کا حجم بہت بڑھ جاتا ہے، جبکہ پاکستان کے برآمد کنندگان کی تعداد محدود ہے۔
انھوں نے کہا کہ بنگلہ دیش نے شروع ہی سے غربت کم کرنے کے لئے درمیانے اور چھوٹے درجے کی انٹرپرائز پر توجہ دی تھی۔
ڈاکٹر ایوب مہر نے کہا کہ پاکستان کو خطے کے دوسرے ممالک کے برابر آنے کے لئے اپنی ترجیحات تبدیل کرنی ہونگی۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے برآمد کنندگان کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی اور اپنے تجارتی خسارے کو کم کرنا ہو گا۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر مستفیض الرحمان ڈھاکہ یونیورسٹی میں استاد رہے ہیں اور ان دنوں ایک تھنک ٹینک سینٹر فار پالیسی ڈائیلاگ میں 'ممتاز فیلو' ہیں۔ اس موضوع پر وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش معاشی نا انصافیوں کے سبب وجود میں آیا تھا۔ اسی لئے اپنے وجود میں آنے کے ساتھ ہی بنگلہ دیش میں معاشی ترقی کے لئے کوششیں شروع ہو گئی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ مجموعی قومی پیداوار ہو یا فی کس آمدنی۔ انتہائی غربت میں کمی کا معاملہ ہو یا زیادہ لوگوں کو معاشی اور معاشرتی حقوق دینے کا معاملہ۔ بلاشبہ بنگلہ دیش پاکستان سے آگے ہے۔ آج بنگلہ دیش کے زر مبادلہ کے ذخائر بھی پاکستان سے بہتر ہیں اور عالمی منڈیوں تک رسائی کے حصول میں بھی اس نے پاکستان کے مقابلے میں بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ اسکا بڑا سبب یہ ہے کہ دونوں ملکوں نے اپنی معاشی ترقی کے لئے ایک دوسرے سے مختلف پالیسیاں اختیار کیں اور ترجیحات کا تعین کیا۔ بنگلہ دیش اپنی پالیسیوں میں کامیاب رہا جب کہ پاکستان مطلوبہ کامیابی حاصل نہ کر سکا۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا اس معاشی تفاوت میں کرپشن کا بھی کوئی دخل ہے، ڈاکٹر مستفیض نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ایسا ہے کیونکہ کرپشن، عدم شفافیت، انتظامی کمزوریاں بنگلہ دیش میں بھی ہیں۔ اور بنگلہ دیش اس معاملے میں پاکستان سے کچھ زیادہ پیچھے نہیں ہے۔ لیکن، اپنی پالیسیوں کے سبب اور اس کردار کے سبب جو غیر سرکاری اداروں اور کاروباری افراد نے ادا کیا، بنگلہ دیش اپنی معیشت کو اس مقام تک لانے میں کامیاب ہوا ہے۔