کریڈٹ ریٹنگ کمپنی 'فچ' نے پاکستانی کرنسی کی قدر کے بارے میں اپنی پیشگوئی پر رواں برس اور آنے والے سال کے لئے نظر ثانی کی ہے اور کہا ہے کہ آنے والے برس میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں شرح تبادلہ 180 روپے تک پہنچ سکتی ہے۔
پاکستانی ماہر معاشیات ڈاکٹر ایوب مہر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موڈیز اور اسٹینڈرڈ اینڈ پورز کی بھی دو قسم کی ریٹنگز ہوتی ہیں، ایک قلیل المدت اور دوسری طویل المدت۔ اور یہ کہ پاکستان کے سلسلے میں وہ زیادہ منفی بھی نہیں ہیں۔
بقول ان کے، فچ نے جو ریٹنگ دی تھی وہ پہلے ہی غلط ثابت ہو چکی ہے، کیونکہ اس کا کہنا تھا کہ 2021ء میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی ہوگی اور وہ 165 روپے فی ڈالر تک جا سکتی ہے۔ لیکن روپے کی قدر میں کمی انکی پیشگوئی سے کہیں زیادہ ہوئی ہے۔ اسلئے اب انہوں نے اس پر نظرثانی کی ہے۔
ڈاکٹر ایوب مہر کا کہنا تھا کہ چند بنیادی وجوہات کی بناء پر پاکستان میں یہ کرنسی کا مسئلہ پیدا ہوا ہے اور فارن اکسچینج کا 'آؤٹ فلو' شروع ہوا ہے۔ اول تو یہ کہ افغانستان کی حکومت کے بیرونی اکاؤنٹس چونکہ منجمد کر دیے گئے ہیں، جس کے سبب وہاں فارن ایکسچینج کا بحران آیا ہے اور پاکستان سے بڑے پیمانے پر ڈالر خریدے جارہے ہیں۔
دوسرے یہ کہ افغانستان کی مدد کی خاطر پاکستان نے یہ پالیسی فیصلہ کیا ہے کہ افغانستان اب پاکستان سے ڈالر کے بجائے روپے میں تجارت کر سکتا ہے اور چونکہ افغانستان پاکستان کا ایک بڑا تجارتی ساجھے دار ہے اس لئے وہ جو بھی تجارت کر رہا ہے وہ ڈالر کے بجائے روپے میں ہو رہی ہے۔ بقول ان کے، ''اور یوں، ڈالر کا پاکستان سے آؤٹ فلو بڑھا ہے اور ان فلو کم ہوا ہے۔ اور تیسری بڑی وجہ پاکستان کا تجارتی خسارہ ہے جو بڑھتا جا رہا ہے''۔
آنے والے دنوں میں روپے کی قدر کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی برآمدات اور درآمدات کے درمیان فرق بہت زیادہ ہے جس سے بجٹ خسارہ بڑھتا جا رہا ہے اور پاکستان کی مجبوری یہ ہے کہ اسکی کوئی 80 فیصد درآمدات میں صنعتی خام مال، کارخانوں کی مشینیں اور ان کے پرزے، تیل اور ادویات شامل ہیں جن میں کوئی کمی نہیں کی جا سکتی۔ بقیہ 20 فی صد تعیش کے زمرے میں آنے والی اشیا ہیں جن میں اگر کمی کر بھی دی جائے تو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ جب انٹرنیشنل مارکیٹ میں قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے، تو پاکستان کے امپورٹ بل پر دباؤ مزید بڑھ جاتا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ اس کا حل کیا ہے، ڈاکٹر ایوب مہر نے کہا کہ اسکا قلیل المدت کوئی حل نہیں ہے۔ ماضی میں ہم قرضوں پر انحصار کرتے رہے ہیں جو کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ پاکستان اپنی برآمدات بڑھائے، وہ مشینیں اور پرزے جو باہر سے درآمد کئے جاتے ہیں وہ ملک میں بنائے جانے لگیں، جس سے درآمدات میں کمی ہو اور غیرملکی سرمایہ کاری ہاکستان آنا شروع ہو جائے۔
ماہر معیشت اور عالمی بنک کے سابق عہدیدار ڈاکٹر زبیر اقبال کہتے ہیں کہ پاکستان کی کرنسی کی قدر کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپکی کرنٹ اکاؤنٹ پوزیشن کیا ہے؟ اور آپکی افراط زر کی شرح کیسی ہے؟ پاکستان میں یہ شرح بہت سے دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اور اس سلسلے میں بہتری کی جانب سفر کے لئے پاکستان کو اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانا ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ مشکل فیصلے ہونگے جن کے تحت آپکو ٹیکس بڑھانا ہو گا۔ یہ کوشش کرنی ہو گی کہ ملک میں جو ترقی ہو رہی ہے اس کا انحصار درآمدات پر نہ ہو، بلکہ صنعت کے لئے اندرون ملک مشینری اور پرزے بنائے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ کرنسی کی شرح کو مستحکم رکھنے کے لئے اندرون ملک بچت میں اضافہ لازمی ہے۔ اور اسکے لئے آپکو ٹیکسوں میں اضافہ کرنا ہو گا اور حکومتی اخراجات میں کمی کرنی ہو گی۔ اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو پھر مارکیٹ جس رخ پر لے جائے اس پر جانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔