رسائی کے لنکس

بن لادن کی ہلاکت: پارلیمان کا بند کمرے میں مشترکہ اجلاس


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اجلاس کے دوران ایوان میں کشیدگی کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے کیوں کہ توقع کی جا رہی ہے کہ بعض اراکین فوجی قیادت کے سامنے مشکل سوالات کر سکتے ہیں جیسے کہ حساس فوجی علاقے کے انتہائی قریب ہونے کے باوجود انٹیلی جنس ایجنسیاں بن لادن کی پناہ گاہ کے بارے میں کیوں لا علم رہیں یا امریکی ہیلی کاپٹروں کی پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر پاکستانی افواج نے کارروائی کیوں نہیں کی؟

پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ کا غیر معمولی مشترکہ اجلاس جمعہ کو ہو گیا ہے جس میں عسکری و سول عہدیدار اراکین پارلیمان کو اسامہ بن لادن کی شمالی شہر ایبٹ آباد میں روپوشی اور پھر امریکی اسپیشل فورسز کے ایک آپریشن میں اُس کی ہلاکت کے بارے میں’اِن کیمرہ بریفنگ‘ دیں گے۔

وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی ہدایت پر بلائے گئے اس اجلاس میں فوج، فضائیہ اور بحریہ کی سربراہان اور سراغ رساں اداروں کے اعلیٰ عہدے دار بھی شرکت کر رہے ہیں۔

سرکاری ٹی وی کے مطابق پہلے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ احمد شجاع پاشا قانون سازوں کو 2 مئی کو پیش آنے والے واقعے کی تفصیلات سے آگاہ کر رہے ہیں جس کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوگا۔

ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اجلاس کے دوران ایوان میں کشیدگی کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے کیوں کہ توقع کی جا رہی ہے کہ بعض اراکین فوجی قیادت سے مشکل سوالات کر سکتے ہیں جیسے کہ حساس فوجی علاقے کے انتہائی قریب ہونے کے باوجود انٹیلی جنس ایجنسیاں بن لادن کی پناہ گاہ کے بارے میں کیوں لا علم رہیں یا امریکی ہیلی کاپٹروں کی پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر پاکستانی افواج نے کارروائی کیوں نہیں کی؟

وزیر اعظم گیلانی رواں ہفتے پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے الگ الگ اجلاسوں میں اس معاملے پر اپنی حکومت کا پالیسی بیان دے چکے ہیں لیکن حزب اختلاف نے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

پیپلز پارٹی کی سربراہی میں قائم مخلوط حکومت نے آئی ایس آئی اور فوج کا دفاع کرتے ہوئے ان پر نا اہلی یا پھر القاعدہ کے رہنما کی معاونت کرنے کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔ اس کے مطابق قیاس آرائیوں پر مبنی اس بیان بازی کا مقصد پاکستان عوام میں مایوسی پھیلانا اور ملک کو بدنام کرنا ہے۔

پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے ایک روز قبل جمعرات کو وزیر اعظم گیلانی کی سربراہی میں کابینہ کی دفاع کمیٹی کا اجلاس بھی منعقد ہوا جس میں ایبٹ آباد آپریشن کے علاوہ قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی سے متعلق اُمور زیر بحث آئے۔

سرکاری بیان کے مطابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کہ موجودہ صورت حال کا جائزہ لیتے وقت جن معاملات پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیئے اُن میں اس واقعے کے قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی پر اثرات سرفہرست ہیں۔ ”ہمیں ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہو گی۔“

اُنھوں نے کہا کہ اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی نے سنگین نوعیت کے متعدد سوالات کو جنم دیا ہے جو عالمی سطح، خصوصاً امریکہ اور پاکستان میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں اور ان کی وجہ سے پاکستانی عوام بے چینی وتشویش کا شکار ہے۔ وزیر اعظم گیلانی نے بتایا کہ یہ سوالات ملکی دفاع، مستقبل میں پھر ایبٹ آباد طرز کی کارروائی پرسیاسی و عسکری قیادت کے ممکنہ ردعمل اور قانونی و اخلاقی اُمور سے متعلق ہیں۔

سرکاری بیان کے مطابق کمیٹی کے اجلاس میں پاکستانی سرزمین پر امریکی اسپیشل فورسز کی خفیہ کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ قومی سلامتی اور خود مختاری کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے گا۔ ”پاکستان اپنی سلامتی کی حفاظت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور کسی خطرے کی صورت میں عوام کے بھرپور تعاون سے اس کا موثر انداز میں مقابلہ کیا جائے گا۔“

کمیٹی کا کہنا تھا کہ پاکستان انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں عالمی برادری کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔ لیکن ساتھ ہی ایک ایسا نظام وضع کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا جس کے ذریعے قومی مفادات اور عوامی خواہشات کی روشنی میں امریکہ سے تعاون کی حدود کا تعین کیا جائے۔

بیان میں پاکستان کی خودمختاری کے احترام کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے باہمی اعتماد اور احترام پر مبنی شراکت داری کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔

پاکستانی کی عسکری قیادت نے اسامہ بن لادن کی ملک میں موجودگی کا کھوج لگانے میں خفیہ ایجنسیوں کی خامیوں کا اعتراف کیا ہے ، جب کہ اس سلسلے میں تحقیقات کے لیے فوج کے ایجوٹینٹ جنرل لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کی سربراہی میں ایک کمیٹی کی تشکیل کا بھی حکم دیا جا چکا ہے۔ لیکن حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) نے اس کمیٹی کو مسترد کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت سے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں ایک آزاد عدالتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے ۔

پاکستان کا موقف سے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں اس کے تقریباً 30 ہزار شہری اور پانچ ہزار سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ ملکی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان بھی پہنچا ہے، اور ان حقائق کے باوجود اگر پاکستان کی نیت پر شک کیا جائے تو یہ درست نہیں ہو گا۔

پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے متنبہ کیا ہے کہ ملک کے اسٹریٹییجک اثاثوں کے خلاف کسی قسم کی مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ ریاستی اداروں کے مابین اختلافات سے متعلق قیاس آرائیوں کی تردید کرتے ہوئے حکومت نے واضح کیا ہے کہ ان کے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

مبصرین کی رائے میں 2011ء پاک امریکہ روابط کے لیے کٹھن ترین سال ثابت ہو رہا ہے کیوں کہ پہلے جنوری میں خفیہ ایجنسی سی آئی اے سے نجی حیثیت میں منسلک امریکی ریمنڈ ڈیوس کی لاہور میں دو پاکستانیوں کے قتل کے الزام میں گرفتاری دوطرفہ تعلقات میں تناؤ کا سبب بنی اور اب ایبٹ آباد آپریشن کے بعد اس کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG