پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے مقدس نسخوں کی بے حرمتی کے الزام میں ایک عیسائی لڑکی کی گرفتاری پر وفاقی وزارتِ داخلہ سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔
اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ عیسائی لڑکی کو جمعرات کو اُس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب مشتعل لوگوں نے اُس کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ احتجاج کرنے والوں کا الزام تھا کہ لڑکی نے قرآنی آیات والے اوراق کو نذر آتش کیا تھا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ لڑکی کو تحقیقات کی غرض سے دو ہفتوں تک تحویل میں رکھا جائے گا۔
صدرِ مملکت نے پیر کو اس گرفتاری کا سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہوئے وزارتِ داخلہ کو 24 گھنٹوں میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
سرکاری بیان کے مطابق پاکستانی صدر نے کہا کہ توہین رسالت کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا، ’’تاہم ذاتی دشمنی کی بنا پر اس قانون کا غلط استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا‘‘۔
اُنھوں نے حکام کو ہدایت کی کہ تمام شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور کسی کو قانون اپنے ہاتھوں میں لینے کی اجازت نہ دی جائے۔
وزیرِ اعظم کے مشیر برائے قومی ہم آہنگی پال بھٹی نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ عیسائی لڑکی کا ذہنی توازن درست نہیں اور اُس پر لگائے گئے الزامات بھی بے بنیاد ہیں۔
دریں اثناء پاکستان کی ایک غیر سرکاری تنظیم ویمن ایکشن فورم نے مقدس اوراق کی بے حرمتی سے متعلق ’’من گھڑت‘‘ الزامات پر عیسائی لڑکی کی گرفتاری کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے پولیس اور وزارت داخلہ پر کڑی تنقید کی ہے۔
پیر کو جاری ہونے والے بیان میں تنظیم نے وفاقی وزیر داخلہ اور اسلام آباد پولیس کے سربراہ کو ذاتی طور پر لڑکی کو رہا کرکے کرائسسز سینٹر کے حوالے کرنے، اس سے کسی مبینہ جنسی زیادتی کا پتا چلانے کے لیے میڈیکل ٹیسٹ کرانے، وکلاء اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو اس سے ملنے کی اجازت دینے کے علاوہ متعدد دیگر اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ عیسائی لڑکی کو جمعرات کو اُس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب مشتعل لوگوں نے اُس کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ احتجاج کرنے والوں کا الزام تھا کہ لڑکی نے قرآنی آیات والے اوراق کو نذر آتش کیا تھا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ لڑکی کو تحقیقات کی غرض سے دو ہفتوں تک تحویل میں رکھا جائے گا۔
صدرِ مملکت نے پیر کو اس گرفتاری کا سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہوئے وزارتِ داخلہ کو 24 گھنٹوں میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
سرکاری بیان کے مطابق پاکستانی صدر نے کہا کہ توہین رسالت کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا، ’’تاہم ذاتی دشمنی کی بنا پر اس قانون کا غلط استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا‘‘۔
اُنھوں نے حکام کو ہدایت کی کہ تمام شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور کسی کو قانون اپنے ہاتھوں میں لینے کی اجازت نہ دی جائے۔
وزیرِ اعظم کے مشیر برائے قومی ہم آہنگی پال بھٹی نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ عیسائی لڑکی کا ذہنی توازن درست نہیں اور اُس پر لگائے گئے الزامات بھی بے بنیاد ہیں۔
دریں اثناء پاکستان کی ایک غیر سرکاری تنظیم ویمن ایکشن فورم نے مقدس اوراق کی بے حرمتی سے متعلق ’’من گھڑت‘‘ الزامات پر عیسائی لڑکی کی گرفتاری کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے پولیس اور وزارت داخلہ پر کڑی تنقید کی ہے۔
پیر کو جاری ہونے والے بیان میں تنظیم نے وفاقی وزیر داخلہ اور اسلام آباد پولیس کے سربراہ کو ذاتی طور پر لڑکی کو رہا کرکے کرائسسز سینٹر کے حوالے کرنے، اس سے کسی مبینہ جنسی زیادتی کا پتا چلانے کے لیے میڈیکل ٹیسٹ کرانے، وکلاء اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو اس سے ملنے کی اجازت دینے کے علاوہ متعدد دیگر اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔