وزیرٕ اعظم کے مشیرِ خاص پال بھٹی نے اسلام آباد کے نواحی علاقے میں ایک عیسائی لڑکی پر توہین اسلام کے الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ متعلقہ حکام لڑکی کو حفاظتی تحویل میں لینے کے بعد واقعہ کی تحقیقات کررہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُنھوں نے کہا کہ محض قوانین میں اصلاحات کرنے سے پاکستان میں ایسے واقعات کی حوصلہ شکنی نہیں کی جاسکتی بالکہ بین المذاہب آہم آہنگی کو فروغ دینے کی کوششوں میں تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کو حکومت کی مدد کرنی ہوگی۔
’’بچی کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں ہے، وہ اپنے طور پر کاغذ وغیرہ اٹھاتی رہتی ہے۔ کسی نے اُسے دیکھ لیا یا جان بوجھ کر اس سے ایسا کروایا گیا ... اس نے تھیلا دیکھا تو اس میں قرآنی آیات کے نسخے تھے جس پر لوگوں کو اکٹھا کر لیا گیا۔ اس (بچی) نے نا ورق جلائے ہیں نا ہی اور کچھ کیا ہے۔‘‘
پولیس حکام کے مطابق علاقہ مکینوں کا الزام ہے کہ 11 سالہ عیسائی لڑکی نے رواں ہفتے قرآنی آیات کو نذر آتش کیا تھا۔
وزیرِ اعظم کے مشیر خاص نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد علاقے میں ہجوم اکٹھا ہو گیا اور مشتعل افراد نے بستی میں رہائش پذیر عسائیوں کے مکانات کو نذر آتش کرنے کی دھمکی بھی دی، جس کی وجہ سے اُنھیں وہاں سے بھاگنا پڑا۔
اطلاعات کے مطابق پولیس نے عیسائی لڑکی کو گرفتار کرنے کے بعد ہجوم کے دباؤ پر اُس کے خلاف توہین اسلام کے قانون کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔
تاہم پال بھٹی کا کہنا ہے کہ متعلقہ حکام نے اُنھیں لڑکی کے مکمل تحفظ کی یقین دہانی کرائی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ماضی میں بھی ملک میں جہاں کہیں ایسے واقعات پیش آئے تو ہجوم میں شامل اکثر لوگ حقائق جانے بغیر کسی ایک شخص کے کہنے پر مشتعل ہو ئے اور بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
’’بہت سے لوگوں کو شاید معلوم بھی نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں، یہ جذباتی ہوتے ہیں اور مذہب کے نام پر مرنے یا مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ ان کی برین واشنگ کی گئی ہے۔‘‘
وزیرِ اعظم کے مشیر خاص برائے قومی ہم آہنگی نے کہا کہ ٹھوس دلائل کے ذریعے ایک دوسرے کو قائل کرنے کا جو عمل حکومت وقت نے شروع کررکھا ہے ’’سست مگر پائیدار‘‘ ثابت ہوگا۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستان میں توہین رسالت سے متعلق قانون میں اصلاحات کا مطالبہ کرتی آئی ہیں کیونکہ ان کے خیال میں ملک کے دیہی علاقوں میں بااثر افراد اس قانون کو ذاتی جھگڑوں کے تصفیے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور عدالتوں کی بجائے توہین اسلام کے مبینہ مرتکب افراد کی قسمت کا فیصلہ عام طور مشتعل ہجوم کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُنھوں نے کہا کہ محض قوانین میں اصلاحات کرنے سے پاکستان میں ایسے واقعات کی حوصلہ شکنی نہیں کی جاسکتی بالکہ بین المذاہب آہم آہنگی کو فروغ دینے کی کوششوں میں تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کو حکومت کی مدد کرنی ہوگی۔
’’بچی کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں ہے، وہ اپنے طور پر کاغذ وغیرہ اٹھاتی رہتی ہے۔ کسی نے اُسے دیکھ لیا یا جان بوجھ کر اس سے ایسا کروایا گیا ... اس نے تھیلا دیکھا تو اس میں قرآنی آیات کے نسخے تھے جس پر لوگوں کو اکٹھا کر لیا گیا۔ اس (بچی) نے نا ورق جلائے ہیں نا ہی اور کچھ کیا ہے۔‘‘
پولیس حکام کے مطابق علاقہ مکینوں کا الزام ہے کہ 11 سالہ عیسائی لڑکی نے رواں ہفتے قرآنی آیات کو نذر آتش کیا تھا۔
وزیرِ اعظم کے مشیر خاص نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد علاقے میں ہجوم اکٹھا ہو گیا اور مشتعل افراد نے بستی میں رہائش پذیر عسائیوں کے مکانات کو نذر آتش کرنے کی دھمکی بھی دی، جس کی وجہ سے اُنھیں وہاں سے بھاگنا پڑا۔
اطلاعات کے مطابق پولیس نے عیسائی لڑکی کو گرفتار کرنے کے بعد ہجوم کے دباؤ پر اُس کے خلاف توہین اسلام کے قانون کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔
تاہم پال بھٹی کا کہنا ہے کہ متعلقہ حکام نے اُنھیں لڑکی کے مکمل تحفظ کی یقین دہانی کرائی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ماضی میں بھی ملک میں جہاں کہیں ایسے واقعات پیش آئے تو ہجوم میں شامل اکثر لوگ حقائق جانے بغیر کسی ایک شخص کے کہنے پر مشتعل ہو ئے اور بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
’’بہت سے لوگوں کو شاید معلوم بھی نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں، یہ جذباتی ہوتے ہیں اور مذہب کے نام پر مرنے یا مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ ان کی برین واشنگ کی گئی ہے۔‘‘
وزیرِ اعظم کے مشیر خاص برائے قومی ہم آہنگی نے کہا کہ ٹھوس دلائل کے ذریعے ایک دوسرے کو قائل کرنے کا جو عمل حکومت وقت نے شروع کررکھا ہے ’’سست مگر پائیدار‘‘ ثابت ہوگا۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستان میں توہین رسالت سے متعلق قانون میں اصلاحات کا مطالبہ کرتی آئی ہیں کیونکہ ان کے خیال میں ملک کے دیہی علاقوں میں بااثر افراد اس قانون کو ذاتی جھگڑوں کے تصفیے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور عدالتوں کی بجائے توہین اسلام کے مبینہ مرتکب افراد کی قسمت کا فیصلہ عام طور مشتعل ہجوم کرتے ہیں۔