رسائی کے لنکس

پاکستان، خون کی طلب میں اضافہ دستیابی کم


تھیلیسمیا کے مریضوں کو ہر ماہ انتقال خون درکار ہوتا ہے
تھیلیسمیا کے مریضوں کو ہر ماہ انتقال خون درکار ہوتا ہے

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات ، تھیلیسمیا کے مرض کی زیادہ شرح ، حمل کے دوران پیچیدگیوں اور دیگر عوامل کی وجہ سے خون کی طلب بڑھ رہی ہے جبکہ دستیابی کم ہے۔

ورلڈ بلڈ ڈونرز ڈے یعنی خون عطیہ کرنے والوں کے عالمی دن کے موقع پر وائس آف امریکہ سے گفتگو میں حکومت کے نیشنل بلڈ ٹرانسفیوژن پروگرام کے نیشنل مینیجر ڈاکٹر حسن ظہیر نے کہا کہ کسی بھی ملک میں خون کی مجموعی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے لازمی ہے کہ اس کی کم از کم ایک فیصد آبادی باقاعدگی سے یعنی سال میں تین سے چار مرتبہ خون کا عطیہ دے۔

تاہم ان کے بقول پاکستان کو جس غیر معمولی صورتحال کا سامنا ہے وہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ یہاں کم از کم تین فیصد آبادی با قاعدگی سے خون عطیہ کرے۔

ڈاکٹر حسن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں خون کی دستیابی ضرورت سے کم ہونے کے باعث قیمتی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے۔‘‘اگر خون بر وقت دستیاب ہو جائے تو ہر سال کئی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں ، تھیلیسمیا کے مریضوں کو ہر ماہ انتقال خون درکار ہوتا ہے، اگر خون نا ملے تو ان کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے اور اگر خون تاخیر سے ملے تو جان تو بچ جاتی ہے لیکن معیار زندگی بہت متاثر ہوتا ہے’’۔

عالمی ادارہ صحت کے ڈاکٹر قائد سعید اس امر پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ پاکستان میں انتقال خون کا موجودہ نظام پوری طرح تسلی بخش نہیں ‘‘ایک جائزے کے مطابق چالیس فیصد بلڈ بینک ایسے ہیں جہاں انتقال کے وقت خون کی اسکریننگ ہوتی ہی نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم خود اس غیر محفوظ طریقہ انتقال کی وجہ سے کئی بیماریاں پھیلا رہے ہیں’’۔

سرکاری جائزے کے مطابق پاکستان میں خون کی نوے فیصد سے زیادہ ضرورت متاثرہ فرد کے رشتے داروں ، چار فیصد خون دینے والے پیشہ ور افراد اور تقریباً تین فیصد رضاکاروں کے ذریعے پوری ہوتی ہے۔

نجی ہسپتال شفا ء انٹرنیشنل کے بلڈ بینک کی انچارج ڈاکٹر عاٰئشہ جنید متنبہ کرتی ہیں کہ اپنے ہی جاندان کے افراد کو خون دینا طبی لحاظ سے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔‘‘اگر کوئی اپنے بہن بھائی یا والدین میں سے کسی کو خون دیتا ہے اور آگے چل کر کسی کی عضو کی پیوندکاری کی ضرورت پیش آئے تو جسم اسے قبول نہیں کرتا’’۔

XS
SM
MD
LG