حکمران پاکستان پیپلز پارٹی کی ممبر قومی اسمبلی ریٹائرڈ جسٹس فخر النساء کا کہنا ہے کہ انسانی اعضاء اور خلیوں کی غیر قانونی پیوندکاری کے خلاف قانون 2010 نے بہت تک حد اس مافیا کی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کی ہے جس نے غریبوں کا استحصال کرتے ہوئے پاکستان کو دنیا میں انسانی اعضاء کی ’’سستی ترین منڈی‘‘ بنا رکھا تھا ۔
اس ہفتے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے اپنے ایک اجلاس میں مذکورہ قانون کے نفاذ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔
اس کے ممبران کا کہنا ہے کہ ملک میں بدستور انسانی اعضاء کی غیر قانونی پیوندکاری جاری ہے اور غربت کے ہاتھوں مجبور افراد ایک سے ڈیڑھ لاکھ میں اپنے گردے فروخت کر رہے ہیں۔
وائس امریکہ سے گفتگو میں ریٹائرڈ جسٹس فخرالنساء نے کہا کہ وہ یہ دعویٰ نہیں کرتیں کہ قانون پر موثر ترین انداز میں عمل درآمد ہو رہا ہے اور انسانی اعضاء کی خرید و فروخت پر سو فیصد قابو پا لیا گیا ہے۔’’یہ ایک بہت اچھا قانون ہے ۔اس میں میں یقیناً کمی اور نقائص ہو سکتے ہیں جنہیں ترامیم سے دور کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن اس سے (قانون سے) اتنا فرق ضرور پڑا ہے کہ یہ کام جو ایک بڑی تجارت بنتا جا رہا تھا اور مریضوں کے دوران بے ہوشی گردے غائب کر دیے جاتے تھے وہ اب نہیں ہو رہا‘‘ ۔
انسانی اعضاء کی غیر قانونی پیوندکاری کے خلاف قانون کا مقصد تجارتی بنیادوں پر اعضاء کی خرید و فروخت کو روکنا اور اس رجحان کی حوصلہ افزائی کرنا تھا کہ مریضوں کو درکار اعضاء ان کے اپنے رشتے دار یا رضاکار عطیہ کریں۔
حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کی ممبر قومی اسمبلی اور انسانی حقوق پر قائمہ کمیٹی کی رکن کشور زہرہ کا کہنا ہے کہ قانون پر سختی سے عمل درآمد نا ہونے کے باعث ملک کے کئی ہسپتالوں میں غیر قانونی پیوندکاری کا سلسلہ جاری ہے ۔
ان کے بقول اس بات کے شواہد بھی ملے ہیں کہ سعودی عرب ، بحرین اور متحدہ عرب عمارات سے کئی غیر ملکیوں نے پاکستان آکر گردوں کی پیوندکاری کرائی۔
’’میں نے خود اپریل میں سرگودھا کے نواح میں بخشا، کوٹ مومن اور بخت پورا سمیت نو تحصیلوں کا دورہ کیا اور وہاں ایسے لوگوں سے ملی جن کے زخم اپنے گردے فروخت کرنے کے بعد تازہ تھے۔ قانون سے صرف یہ فرق پڑا ہے کہ جو گردہ چالیس ہزار میں فروخت ہوتا تھا وہ اب ڈیڑھ سے دو لاکھ میں فروخت ہو رہا ہے۔‘‘
ایم کیو ایم کی رکن قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ قانون کے تحت گردہ فروخت کرنے والوں ، اس کی غیر قانونی پیوندکاری کرنے والوں اور ان کے شراکت داروں کے لئے دس دس سال قید اور دس دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا موجود ہے ۔ تاہم ان کا کہنا تھا جب سے قانون بنا ہے کسی ایک فرد کے خلاف بھی کیس درج نہیں کیا گیا۔