رسائی کے لنکس

بم دھماکوں کے متاثرین ۔۔۔ درد کا درماں کون بنے گا


بم دھماکوں کے متاثرین ۔۔۔ درد کا درماں کون بنے گا
بم دھماکوں کے متاثرین ۔۔۔ درد کا درماں کون بنے گا

آج جیسے ہی دفتر سے نکلا تو خوشگوار موسم کے استقبال سے دل جھوم اٹھا۔ آسمان پر انتہائی گہرے بادل سورج کی گرمی کے سامنے ڈھال بنے ہوئے تھے اور ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکوں نے ماحول پر سحر طاری کر رکھا تھا ۔ اتنے میں موبائل فون پر گھنٹی بجی ۔دیکھا تو دوسری جانب ایک انتہائی قریبی دوست خالد تھا جو تقریباً ایک سال بعد مجھ سے ملنے کیلئے ایک گھنٹے بعد دفتر آ رہا تھا ۔خالد کے آنے کی خوشی نے میرے اندر کے موسم کو مزید چار چاند لگا دیئے تھے۔

موسم کی مہربانی محسوس کرتے ہی چائے کی طلب چمک اٹھی چنانچہ دفتر کے پاس ہی ایک ہوٹل میں بیٹھ گیا اور چائے کا آرڈر کر دیا ۔ اس ہوٹل میں اکثر میں اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ چائے پینے کیلئے آتا رہتا تھا لہذا کافی لوگ میرے واقف کار بن گئے تھے۔

تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اسی ہوٹل کا ایک ملازم اکبرخان چائے لیکر آ گیا۔ اکبرخان کی عمر یہی کوئی بارہ تیرہ سال ہوگی۔ وہ اکثر ہمارے دفتر بھی چائے دینے آتا رہتا تھا ،میں محض ماحول کو خوشگوار بنانے کی غرض سے اس سے ہلکا پھلکا مذاق بھی کر لیتا تھا ۔وہ بھی ہنستا اور اپنے تئیں مجھ سے مذاق کرلیتا تھا لیکن آج چائے کا کپ میرے سامنے رکھتے ہوئے بھی وہ کچھ نہیں بولا اور اداسی کے عالم میں ہی واپس چلا گیا۔

میرے سامنے میز پر آج کا اخبار پڑاتھا ۔میں چائے کی چسکیوں کے دوران خبروں پر سرسری نظر دوڑانے لگا۔ میرے سامنے شہ سرخی تھی :” ملک میں ایک ماہ کے دوران بم حملوں میں درجن سے زائد افرادجاں بحق، متعدد زخمی ہوگئے“

ابھی میں اس خبر کی تفصیلات پڑھ ہی رہا تھا کہ تیز آندھی اور بارش شروع ہو گئی ، میں نے اخبار ایک طرف رکھااور بارش کے مزے لینے لگا ۔

ہوٹل میں اس وقت میں ، اکبر اور اس کا سیٹھ موجود تھے ۔ خراب موسم کے باعث ہوٹل خالی تھا اور لوگ گھروں کا رخ کر رہے تھے ۔ ہوٹل کے باہر بہت سے بچے بارش میں نہہ رہے تھے ۔اچانک میری نظر ایک کونے میں بیٹھے اکبرپر پڑی۔ وہ ایک کتاب پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔ میں سوچنے لگا کہ یہ کیا پڑھ رہا ہے ؟پھر رہا نہ گیا تو اسے آواز دے دی۔ اکبر میاں کیا بات ہے، تم بارش میں نہیں نہا رہے۔میری بات پر اکبر نے بے اعتنائی سے جواب دیا : نہیں صاب میرے پاس وقت نہیں ہے ۔ اس کا جواب سن کو مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ آخر یہ ایسی کیا چیز پڑھ رہا ہے ۔ مجھ سے رہا نہیں گیا تو میں اس کے پاس چلا آیا۔ اس کے ہاتھ میں تیسری جماعت کی انگریزی کی کتاب تھی ۔

میں نے پوچھا کہ کیا تم اسکول بھی جاتے ہو۔اس نے فوراً اثبات میں سر ہلا دیا۔میں پھر بولااگر تمہیں شوق ہے تو یہ کام کیوں کرتے ہو ؟تمہارے پڑھنے کی عمر ہے ، کام وام کیلئے تو ساری عمر پڑی ہے ۔ میری بات کا اس نے کوئی جواب نہیں دیا البتہ اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آئی اور گزر گئی ۔

مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے پوچھ ہی لیا کہ تم اسکول کب جاتے ہو۔ اس نے کہا کہ صبح اسکول جاتا ہوں ،شام کو یہاں کام کرتا ہوں ۔

کچھ دیر کی باتوں کے بعدہی اکبر کی ننھی شخصیت میرے لیے کھلی کتاب ہوگئی ۔ وہ اپنے آپ میں، اس قدر چھوٹی عمر کے باوجود کس قدر درد رکھتا ہے مجھے اس کا اندازہ نہ تھا۔ اس نے جوکچھ کہا وہ کسی درد بھری کہانی سے مختلف نہ تھا ۔ اگرمیں اس کی باتوں سے نتیجہ اخذ کروں تو اس کی کہانی کچھ یوں بنتی ہے:

تین چار سال پہلے وہ بھی اپنے دوسرے دوستوں کے ساتھ اسکول جاتا تھا اور بہت خوش تھا ۔مگر ایک دن اچانک جب وہ اسکول سے گھر لوٹا تو اس نے عجیب منظر دیکھا۔ہر طرف لوگ جمع تھے،کانوں میں سسکیوں اور آہوں کے سوا کچھ سنائی نہ دیتا تھا۔ اسے دیکھتے ہی سب لوگ دلاسہ دینے لگے ۔ اس کی ماں اور بہن دھاڑیں مار مار کر رو رہی ہیں ۔ قریب ہی اس کے والد کی سفید کفن میں ملبوس میت رکھی تھی۔ اس کے والد، دلاور خان رکشہ ڈرائیور تھے اور اس روزسر راہ اچانک ایک دھماکا ہوا اور کئی لوگ اس کی لپیٹ میں آگئے۔

والد کے گزر جانے کے بعد اکبر کے معاشی حالات انتہائی خراب ہو گئے یہاں تک کہ نوبت فاقوں تک آ پہنچی ۔والدہ کی طبیعت بھی د ن بدن خراب رہنے لگی اور وہ ٹی بی کی مریضہ بن گئیں۔ شروع میں ترس کھا کر محلے کے دکاندار ادھار وغیرہ دے دیتے تھے لیکن بعد میں وہ بھی بند ہو گیا ۔گھرکرائے کا تھا لہذا مالک مکان گھر سے نکالنے کی دھمکیاں دینے لگا ۔

اس تمام تر صورتحال میں اکبر کی بڑی بہن نے ہمت کی اورایک فیکٹری میں ملازمت اختیار کر لی لیکن ان کی تنخواہ اتنی نہیں تھی کہ گھر کا کرایہ ،خرچہ،بجلی ، گیس ، پانی اور علاج معالجے کے اخرات پورے ہوسکتے لہذا ایک روز اکبرنے ایک ٹرک ڈرائیور سے بات کی اور ٹرک پر سوار ہوکر کراچی آبسا۔

اس شہر میں اس کے کچھ قریبی رشتہ دارتھے جن کے کہنے پراکبر کو گاڑیوں کے ایک گیراج میں لگا دیا گیا تاہم وہاں ایک ہفتہ بھی نہ گزراتھا کہ اکبر کو خیرباد کہنا پڑا۔

اس دوران وہ اکثر راتوں کو اٹھ کر اپنی بے بسی پر روتا ۔ صبح جب محلے کے بچوں کو اسکول جاتے دیکھتا تو اس کے ننھے ذہن میں عجیب وغریب سوالات کا تانتا بندھ جاتا ۔ وہ مایوسی کے عالم میں اکثر اپنے پرانے اسکول بیگ کو دیکھتا اور سوچتا کہ شاید اب وہ کبھی اسکول نہیں جا پائے گا ۔اس کے سامنے اس کا مستقبل ایک سوالیہ نشان بن گیا تھا ۔

تقریباً ایک ماہ تک اکبر نے اسی طرح شب وروز گزارے، پھر ایک فیکٹری کے چوکیدار نے اس پر ترس کھا کر اس ہوٹل میں ملازمت دلادی ۔ یہاں اس کے اوقات کار سہ پہر تین بجے سے رات دس بجے تک تھے اوریوں اکبر کو صبح میں اسکول جانے کا وقت مل جاتا تھا ۔ گھر قریب ہونے کی وجہ سے اکبر کے گھر والوں نے بھی اسے نئی جگہ پر کام کرنے کی اجازت دے دی ساتھ ہی اسکول میں بھی داخلہ دلا دیا گیا۔

اور یوں اکبر کو دنیا کی ہر چیز پھر سے خوبصورت نظر آنے لگی ۔ اس کی آنکھوں میں نئے سپنے سجنے لگے ۔وہ خوش تھا کہ کم از کم زندگی نے اسے ایک بار پھر جینے کا موقع تو دیا ۔

اکبر کی کہانی تو یہیں ختم ہوگئی مگر میں رات گئے تک اسی کے بارے میں سوچتا رہا ۔ سچ پوچھئے تو اسی رات مجھے سمجھ میں آیا کہ اسلام میں ایک قتل پوری انسانیت کا قتل کیوں قرار دیا گیا ۔ میرے ذہن میں بار بار ایک ہی سوال اٹھ رہا تھا کہ اگر اکبر اس تمام تر صورتحال میں بری صحبت اختیار کر لیتا اور منفی سرگرمیوں میں مصروف ہو جاتا تو کیا ہوتا؟ کیا وہ دہشت گردوں کے لئے آسان ہدف نہ ہوتا؟۔۔۔وہ لوگ ایسے ہی کچے ذہنوں کو واش کرکے اپنا مقصد پورا کرتے ہیں۔

میں دیرتک یہ سوچتا رہا کہ ایک دھماکے کا مقصد ہے نئے اکبر کا جنم ۔۔اور اکبر جیسے کئی خاندانوں کا معاشی و معاشرتی قتل!ہر نئے دھماکے کا مطلب ہے اتنے ہی نئے کرداروں کا جنم ۔۔۔۔!حقیقت تو یہ ہے کہ اکبر جیسے حوصلہ مند کردار تو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ورنہ جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے کیلئے انسان کیا کچھ کرنے پر مجبور نہیں ہو جاتا۔

میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ ہم ظالموں کے ہاتھوں ناحق قتل ہونے والوں پر صرف اتنی دیر ہی افسوس کر تے ہیں جتنی دیر ایک خبر ہماری نظر کے سامنے ہوتی ہے ۔ لیکن اس خبر کے پس منظر کا اصل شکار تو لواحقین ہوتے ہیں ۔ دہشت گردی زندگی بھر کا روگ بن جاتی ہے اور وہ جیتے جی مر جاتے ہیں۔حکام بالا،بڑے بڑے انصاف کے علمبردار ، دنیا کی لاتعداد این جی اوز اور فلاحی ادارے بھی ان واقعات کو انتہائی افسوس ناک قرار دیتے ہیں اور قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کرتے ہیں ،لیکن کیا صرف اتنا ہی کافی ہے ؟ اگر قاتلوں کو گرفتار بھی کر لیا جاتا ہے تو کیا ان اقدامات سے دہشت گردی کی جوفصل بوئی گئی ہے اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔۔۔یہ شاید ہم نہیں سوچتے ۔

XS
SM
MD
LG