پاکستان کے نئے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کیلئے وزارت عظمیٰ کامنصب پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہو گا ۔ ایک جانب تو عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد اور سیاسی مسائل ان کے منتظر ہیں تو وہیں عالمی اور معاشی چیلنجز سر اٹھائے کھڑے ہیں ۔
تین روزتک طویل مشاورت کے بعدحکمراں اتحاد نے آخر کار وزارت عظمیٰ کا تاج راجہ پرویز اشرف کے سر سجا دیا ہے لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ ان کے لئے نہ تو چھ ماہ تک وزارت عظمیٰ کا بوجھ اٹھانا آسان ہوگا اور نہ ہی بے پناہ مسائل پر قابو پانا ،کسی بھی معجزے سے کم ہو گا ۔ نئے وزیر اعظم کو جو نئے چیلجز درپیش ہوں گے وہ کچھ یوں ہیں :
عدالتی چیلنجز
راجہ پرویز اشرف کو جو فوری اور سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ عدلیہ کااین آر او پر فیصلہ ہے جس کے تحت اس منصب پر پہلے فائز یوسف رضا گیلانی کی نہ صرف چھٹی ہوئی بلکہ پانچ سال تک سیاست میں ان کے لئے دروازے بھی بند ہو گئے ۔ آئینی ماہرین کے نزدیک راجہ پرویز اشرف کی قسمت کا فیصلہ عدالت کے ہاتھ میں ہے ۔
آئینی ماہرین کے نزدیک سپریم کورٹ چاہے تو وہ کسی بھی وقت انہیں خط لکھنے کا نوٹس دے سکتی ہے ۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو کوئی بھی شہری اس حوالے سے عدالت میں درخواست دے سکتا ہے ۔ دونوں صورتوں میں ان کے عہدے کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں ۔ البتہ ان کے پاس اس کا ایک ہی توڑ ہے کہ وہ عدالت میں خود چلے جائیں اور صدر آصف علی زرداری کے استثنیٰ سے متعلق درخواست دے دیں لیکن ایسا ناممکن نظر آتا ہے کیونکہ اگرپیپلزپارٹی کو یہی کرنا ہو تا تو یوسف رضا گیلانی وزیراعظم ہاؤس سے رخصت نہ ہوتے ۔
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ پیپلزپارٹی کی کوشش یہ ہے کہ صرف اور صرف اس کے وزیر اعظم کو ہٹایا جائے تا کہ وہ چھ ماہ بعد ہونے والے انتخابات کی مہم میں یہ کہہ سکے کہ اسے عوامی مسائل کے حل کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا ۔یہی وجہ ہے کہ اس نے ایفڈرین کیس میں ملوث مخدوم شہاب الدین کا نام وزارت عظمیٰ کیلئے منتخب کیا تھا لیکن کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد ان کے گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے کے بعد اسے یہ فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔
سیاسی چیلنجز
اپوزیشن کی بڑی جماعت مسلم لیگ ن سے بہتر تعلقات رکھنا بھی راجہ پرویز اشرف کیلئے سب سے بڑا سیاسی چیلنج ہو گا۔ن لیگ کے صدر نواز شریف نے نیا وزیراعظم منتخب ہونے سے چند گھنٹے قبل نواب شاہ میں میڈیا سے گفتگو کی اور کہا کہ راجہ پرویز اشرف اس عہدے کیلئے موزوں نہیں ۔پرویز اشرف کی وزارت کے دوران کرائے کے بجلی گھروں سے متعلق اسکینڈل اور اس پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر بھی اپوزیشن انہیں آڑے ہاتھوں لے رہی ہے اور لے گی ۔
اس کے علاوہ نئے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی اور نگراں سیٹ اپ کے لئے ن لیگ سے راجہ پرویز اشرف کے تعلقات انتہائی ضروری ہیں لیکن بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں یہ کافی مشکل ہو گا۔ دوسری جانب عام انتخابات میں صرف چھ ماہ کا وقت بچا ہے ۔ حکومت میں شامل تمام اتحادی جماعتیں اپنے اپنے امیدواروں کے حلقوں میں زیادہ سے زیادہ کام کرانا چاہتی ہیں ۔ ایسی صورتحال میں راجہ پرویز اشرف کو اتحادی جماعتوں پر مشتمل نئی کابینہ تشکیل دینی ہے ۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نئے وزیراعظم کے نام پر تین روز تک اتحادی جماعتوں میں جو مشاورت ہوئی ہے اس کا اصل مقصد اتحادیوں کو مطمئن کرنا تھا کہ یوسف رضا گیلانی کے دور میں جو تحفظات اتحادی جماعتوں کو تھے وہ راجہ پرویز اشرف کے دور میں کیسے دور ہوں گے ۔وزیراعظم کے انتخاب کا اختیار تو پہلے روز ہی اتحادی جماعتوں نے صدر کو دے دیا تھا ۔اس کے علاوہ سیاسی محاذ پر انہیں بلوچستان کا ایک ایسا حل تلاش کرنا ہو گا جس سے وہاں کے عوام کی محرومیوں کا ازالہ ہو سکے ، کراچی میں قیام امن بھی سیاسی بات چیت میں ہی پوشیدہ ہے ۔
بین الاقوامی چیلنجز
راجہ پرویز اشرف نے ایک ایسے وقت میں وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا ہے جب اپوزیشن یہ الزام عائد کر رہی ہے کہ موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی نے پاکستان کو دنیا میں تنہا کر دیا ہے ۔ امریکا سمیت دنیا جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرتی تھی آج اس کے رویے میں بدلاؤ آ چکا ہے لہذا عالمی برادری سے تعلقات معمول پر لانا ان کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے ۔
اس کے علاوہ پاکستان نے افغانستان کے راستے نیٹو رسد بند کر رکھی ہے اور عالمی برادری کا اس کی بحالی کیلئے شدید دباؤ ہے ۔ علاوہ ازیں پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں شدت پسندوں کی موجودگی پر بھی عالمی برادری کو شدید تحفظات ہیں باالخصوص حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بار بار سامنے آ رہا ہے ۔ افغانستان میں دو ہزار چودہ میں نیٹو افواج کا انخلا ہونا ہے لہذا راجہ پرویز اشرف کی حکومت کو اس حوالے سے بھی اپنی حکمت عملی طے کرنی ہو گی ۔
اقتصادی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسوقت پاکستانی معیشت کو دیوالیہ ہونے جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔ راجہ پرویز اشرف نے ایک ایسے وقت میں وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا جب ملک سنگین توانائی کے بحران کا شکار ہے جس کے وجہ سے صنعتیں تباہ ہو چکی ہیں، مہنگائی اور بے روز گاری ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہے ۔ بجلی بحران کی وجہ بننے والے زیر گردش قرضے وزیراعظم کی نیندیں اڑانے کیلئے کافی ہیں ۔ اس مسئلے پر ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی حکمراں جماعت مسلم لیگ ن نے وفاق کے خلاف اس مسئلے پر اعلان جنگ کر رکھا ہے اور پورا صوبہ جلاؤ گھیراؤ اور پرتشدد واقعات کی لپیٹ میں ہے ۔
ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری ختم ہو رہی ہے ۔ بجلی اور امن و امان کی صورتحال کے باعث پاکستانی انڈسٹریز تیزی سے دیگر ممالک میں منتقل ہو رہی ہیں ۔ اس صورتحال میں نئے وزیراعظم کیسے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کریں گے یہ مسئلہ بھی کوئی کم نہیں۔ عالمی سطح پر خاص طور پر امریکا سے تعلقات بہتر کر کے ڈیڑھ ارب ڈالر سے زاہد کی دفاعی اور معاشی امداد کے حصول پر بھی راجہ پرویز اشرف کو سوچنا پڑے گا ۔
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1