|
چین نے کہا کہ وہ اپنے جنوبی ایشیائی پڑوسی اور قریبی اتحادی پاکستان کے ساتھ سیکیورٹی تعاون بڑھانے کے لیے پانچ برس میں انسداد دہشت گردی کی پہلی مشترکہ مشقوں کے لیے اس ماہ کے آخر میں اپنے فوجی پاکستان بھیجے گا۔
بیجنگ کا یہ اعلان ان رپورٹس کے بعد سامنے آیا ہے جن کے مطابق چین اسلام آباد پر زور دے رہا ہے کہ وہ پاکستان میں کام کرنے والے ہزاروں چینی شہریوں کو دہشت گردی کے مہلک حملوں سے بچانے کے لیے چینی سکیوریٹی اہلکاروں کو ملک میں کام کرنے کی اجازت دے۔
یہ ایسا وقت بھی ہے جب پاکستانی سکیوریٹی فورسز کے خلاف دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
ان حملوں کا ذمہ دار کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کو ٹھیہرایا جاتا ہے۔ اس گروپ کا یہ حملے کرنے کا دعویٰ بھی ہے۔
چین کے سرکاری میڈیا کے مطابق چینی وزارت دفاع نے منگل کو کہا کہ پاکستان کی میزبانی میں "وارئیر ایٹ" نامی مشقیں نومبر کے آخر میں شروع ہوں گی اور دسمبر کے وسط تک جاری رہیں گی۔
رپورٹس کے مطابق ان مشقوں کا مقصد"مشترکہ انسداد دہشت گردی آپریشنز کی صلاحیت کو بڑھانا ہے۔"
چینی وزارت کے مطابق ان مشقوں میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی کی مغربی تھیٹر کمانڈ کے دستے حصہ لیں گے۔
سرکاری میڈیا رپورٹس کے مطابق، دونوں فریق مختلف کثیر السطحی اور مخلوط تربیت میں حصہ لیں گے اور حقیقی جنگی عمل کے مطابق براہ راست فوجی مشقیں کریں گے۔
واضح رہے کہ آخری بار دونوں ملکوں نے سال 2019 میں مشترکہ انسداد دہشت گردی مشقیں کی تھیں۔
چینی باشندوں کے خلاف حملوں کی لہر
پچھلے ماہ پاکستان کے شہر کراچی کے ہوائی اڈے کے بالکل باہر ایک خودکش کار بم دھماکے میں دو چینی انجینئرز ہلاک ہو گئے تھے۔
اس حملے کا شکار بننے والے انجینیئر تھائی لینڈ میں تعطیلات گزارنے کے بعد چین پاکستان اقتصادی راہداری کے ایک منصوبے پر کام کے لیے لوٹ رہے تھے۔
سی پیک کے نام سے معروف یہ منصوبہ صدر شی جن پنگ کے عالمی "بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو" کے اربوں ڈالر کے پراجیکٹ کا حصہ ہے۔
رواں سال مارچ میں پاکستان کے شمال میں ہونے والے ایک خودکش کار بم حملے میں پانچ چینی اہل کار مارے گئے تھے جبکہ ان کا مقامی ڈرائیور بھی ہلاک ہوا تھا۔
بیجنگ چینی شہریوں کو بار بار نشانہ بنا ئے جانے پربرہم ہے اور اس نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ ملک میں چینی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے "مشترکہ سیکیورٹی مینجمنٹ سسٹم" پر بات چیت کرے۔
اسلام آباد نے مبینہ چینی سفارتی دباؤ کی اطلاعات کو مسترد کر دیا ہے۔ پاکستان نے مبینہ دباو کو "میڈیا کی قیاس آرائیاں" اور بیجنگ کے ساتھ اسلام آباد کے تعلقات کے حوالے سے "الجھن پیدا کرنے" کی کوشش قرار دیا ہے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز بلوچ نے گزشتہ جمعرات کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا، "پاکستان اور چین کے درمیان انسداد دہشت گردی اور پاکستان میں چینی شہریوں کی سلامتی سمیت متعدد امور پر مستحکم بات چیت اور تعاون موجود ہے۔"
ترجمان نے کہا،" ہم اپنے چینی بھائیوں کے ساتھ پاکستان میں چینی شہریوں، منصوبوں اور اداروں کی حفاظت اور تحفظ کے لیے کام جاری رکھیں گے۔"
تعلقات پر اثر
وزارت خارجہ کی ترجمان بلوچ نے مزید کہا کہ پاکستان اور چین کے درمیان باہمی اعتماد اور تعاون کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی اور نہ ہی دونوں ممالک "پاک چین اسٹریٹجک پارٹنرشپ کو پٹڑی سے اتارنے کی کوششوں یا کہانیوں کی اجازت دیں گے۔"
کراچی کار بم حملے کے چند دن بعد اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چینی سفیر جیانگ زیدونگ نے عوامی سطح پر چینی شہریوں کو درپیش خطرات کو روکنے کے لیے میزبان حکومت کے حفاظتی اقدامات پر سوال اٹھایا تھا۔
سفیر نے کہا تھا،"صرف چھ ماہ میں ہم پر دو بار حملہ ہمارے لیے ناقابل قبول ہے۔"
جیانگ زیدونگ نے اسلام آباد پر زور دیا کہ وہ "اس طرح کی بار باردہشت گرد کارروائیوں کو روکنے کے لیے تدارک کے موثر اقدامات کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ مجرموں کی شناخت ہو، انہیں پکڑا جائے اور سزا دی جائے۔"
پاکستان نے چینی سفیر کے ریمارکس کو "پریشان کن" اور پڑوسیوں کے درمیان قائم سفارتی روایات کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔
پاکستان کی جانب سے ایسا ردعمل پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا جبکہ سفیر جیانگ کی عوامی سطح پر اسلام آباد کی سرزنش نے چینی شہریوں پر حملوں سے پیدا ہونے والی کشیدگی کو اجاگر کیا۔
گزشتہ پانچ سالوں میں کم از کم 21 چینی پاکستان میں حملوں میں ہلاک ہوئے ہیں۔
افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں
پاکستانی اور چین کی مشترکہ فوجی مشقیں پاکستان میں سکیوریٹی فورسز اور شہریوں پر مہلک عسکریت پسندوں کے حملوں میں ڈرامائی اضافے کے دوران ہورہی ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ حملے پڑوسی ملک افغانستان میں "ٹی ٹی پی کی پناہ گاہوں" سے کیے جا رہے ہیں۔
افغانستان کے اسلام پسند طالبان رہنما ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
افغان امور کے لیے چین کے خصوصی ایلچی یو شیاو یانگ نے اس ہفتے اسلام آباد کا دورہ کیا جہاں مبینہ طور پر پاکستانی حکام نے رپورٹس کے مطابق ان کے ساتھ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی موجودگی اور اس سے علاقائی استحکام کو لاحق خطرات کے حوالے سے شواہد دیے تھے۔
اسلام آباد اور بیجنگ کی طرف سے اس بارے میں میڈیا رپورٹس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔
ملاقات کے بعد ایک مختصر پاکستانی بیان میں کہا گیا کہ افغان صورت حال بات چیت کا مرکز تھی۔ اس موقع پر بیان کے مطابق پاکستان اور چین نے "پرامن اور مستحکم افغانستان کے لیے پڑوسی ممالک کے اہم کردار کا اعادہ کیا۔"
فورم