پاکستان کے شمال مغربی ضلع دیر بالا میں عسکریت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے اور لڑائی کے باعث مقامی آبادی نقل مکانی کر رہی ہے۔
فوجی حکام کا کہنا ہے کہ مفرور پاکستانی طالبان نے افغان جنگجوؤں کے تعاون سے افغانستان کے مشرقی صوبے کنڑ اور نورستان میں اپنی پناہ گاہیں قائم کررکھی ہیں جہاں سے وہ سرحد عبور کر کے حالیہ ہفتوں میں دیر بالا اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقے باجوڑ میں حفاظتی چوکیوں اور دیہاتوں میں متعدد مرتبہ دہشت گردی کی کارروائیوں کر چکے ہیں۔ ان میں سب سے بڑی کارروائی دیر کے شل تلو نامی گاؤں میں یکم جون کو کی گئی تھی جس میں دو درجن سے زائد پولیس اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔
اس واقعہ کے بعد حکام کے مطابق دراندازوں نے افغان سرحد سے ملحقہ ان علاقوں میں کئی مرتبہ حملے کر کے وہاں اسکولوں سمیت دیگر نجی و سرکاری املاک کو بھی تباہ کر دیا۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے عسکریت پسندوں کے خلاف جوابی کارروائی میں اب تک درجنوں حملہ آوروں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔
دیر بالا کے ضلعی رابطہ افسر غلام محمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ علاقے میں تازہ ترین حملہ دو روز قبل کیا گیا لیکن سکیورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کر کے عسکریت پسندوں کو افغانستان کی جانب پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔
دیر بالا کے اس دور دراز علاقے میں شدت پسندوں کی کارروائیوں اور ان کے خلاف سکیورٹی فورسز کے آپریشن کی وجہ سے مقامی آبادی علاقے سے ہجرت پر مجبور ہو گئی ہے تاہم ڈی سی او غلام محمد کا کہنا ہے کہ نقل مکانی کا یہ سلسلہ کسی بحرانی صورت حال کا باعث نہیں بنے گا۔
گزشتہ ہفتے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے افغان صدر حامد کرزئی کو ٹیلی فون کر کے سرحد پر دراندازی کے ان واقعات کے بارے میں اُنھیں پاکستان کی تشویش سے آگاہ کرتے ہوئے افغان اور نیٹو افواج کو اپنی جانب سرحد کی نگرانی موثر بنانے اور عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت کو روکنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
یکم جون کو عسکریت پسندوں کے حملے کی ایک ویڈیو فلم بھی طالبان نے مقامی میڈیا کو جاری کی ہے جس میں حملہ آوروں نے پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں کو ایک قطار میں کھڑا کر رکھا ہے اور بعد میں یہ کہہ کر ان پر گولیوں کی بارش کردیتے ہیں کہ یہ سوات میں کی جانے والی فوجی کارروائی کا انتقام ہے۔