افغان سرحد سے ملحقہ کرم ایجنسی کے وسطی علاقوں میں عسکریت پسند وں کے خلا ف اتوار کو باضابطہ طور پرشروع کی گئی کارروائی منگل کے روز بھی جاری رہی۔
حکام کے بقول سیکورٹی فورسز کے دستے علی شیر زئی ، محسو زئی، زیمشت اور دیگر علاقوں میں پیش قدمی کر رہے ہیں اور اب تک انھیں شدت پسندوں کی طرف سے کسی مزاحمت کا سامنا نہیں ہوا ہے۔ سکیورٹی فورسز توپ خانے کی مدد سے پہاڑی علاقوں میں مبینہ شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر وقفے وقفے سے گولہ باری کر رہے ہیں۔
علاقے میں ذرائع ابلاغ کو رسائی حاصل نہ ہونے کے باعث فوجی کارروائی میں ہونے والے نقصانات کے بارے میں معلومات کے حصول تقریباََ ناممکن ہے ۔ فوجی کارروائی کا جائزہ لینے کے لیے پشاور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل آصف یاسین ملک نے علاقے کا دورہ کیا اور انھوں نے عوام اور قبائلی عمائدین پر زور دیا کہ وہ عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے سکیورٹی فورسز کا ساتھ دیں۔
عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی میں تیزی آنے سے علاقے سے لوگوں کی نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے ۔ کرم ایجنسی کے دوسرے بڑے قصبے سدہ میں حکام نے بتایا کہ اب تک تین ہزار سے زائد خاندانوں نے نقل مکانی کی ہے۔
نقل مکانی کرنے والوں میں تقریباََ ساڑھے تین سو خاندانوں نے انتظامیہ کی جانب سے قائم کی جانے والی خیمہ بستی میں جب کہ دو سو سے زائد خاندانوں نے سرکاری عمارات اور اسکولوں میں رہائش اختیار کر رکھی ہے لیکن حکام کا کہنا ہے کہ نقل مکانی کرنے والے تقریباََ اڑھائی ہزار خاندانوں نے اپنے عزیز و اقارب کے گھر میں پناہ لے رکھی ہے۔
سرکاری کیمپ کے انتظامیہ کے بقول نقل مکانی کرنے والے افراد کو رہائش کے لیے فراہم کیے گئے خیموں کے علاوہ پکا پکایا کھانا اور دیگر ضروریات زندگی فراہم کیے جارہے ہیں۔
قبائلی علاقوں میں قدرتی آفات اور ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے سرکاری ادارے کے ایک عہدے دار خالد الیاس نے وائس آف امریکہ کو بتایا ”ابھی تک تو ہم اپنے جو لیٹیسٹ ریسورسزہیں وہ موبیلائز کر رہے ہیں اور یو این ایچ سی آر ہمارے ساتھ بہت ہیلپ کر رہی ہے۔“
وسطی کرم کے مختلف علاقوں میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانے قائم ہیں اور ان کی کارروائیوں کی وجہ سے پارہ چنار اور پشاورکو ملانے والی مرکزی شاہراہ پر گذشتہ کئی سالوں سے آمدو رفت کا سلسلہ معطل ہے۔