پاکستان کے مقتول وفاقی وزیر برائے اقلیتی اُمور شہباز بھٹی کی آخری رسومات جمعہ کو دارالحکومت اسلام آباد کے گرجا میں ادا کی گئیں اور اُن کی تدفین صوبہ پنجاب میں اُن کے آبائی گاؤں خوش پور میں کی گئی۔
فاطمہ چرچ میں منعقد ہونے والی تقریب میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، سینیئر سرکاری عہدے داروں اور سفارت کاروں سمیت اقلیتی عیسائی برادری کے اراکین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
مقتول وزیر کی میت قومی پرچم میں لپٹے تابوت میں گرجا پہنچائی گئی جس کے گردونواح میں انتہائی سخت حفاظتی انتظامات انتظامات کیے گئے تھے اور غیر متعلقہ افراد کے یہاں آنے پر مکمل پابندی تھی۔
وفاقی کابینہ کے واحد غیر مسلم رکن کو نامعلوم مسلح افراد نے بدھ کے روز اسلام آباد میں اُن کی گاڑی روک کر گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ جائے وقوعہ سے ملنے والی طالبان شدت پسندوں سے منسوب ایک تحریر کے مطابق شہباز بھٹی کو تحفظ ناموس رسالت ایکٹ میں تبدیلی کی حمایت پر قتل کیا گیا۔
شہباز بھٹی کی تدفین فیصل آباد کے قریب اُن کے آبائی گاؤں خوش پور میں کی گئی جہاں جمعہ کی صبح اقلیتی عیسائی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد نے وفاقی وزیر کے قتل کے خلاف مظاہرہ بھی کیا۔ احتجاجی جلوس میں شامل افراد نے سیاہ پرچم اُٹھا رکھے تھے اور وہ قاتلوں کی گرفتاری اور اُنھیں پھانسی کی سزا دینے کے حق میں نعرے بازی کر رہے تھے۔
عیسائی اکثریت والے گاؤں خوش پور میں بھی سکیورٹی فورسز نے سخت حفاظتی انتظامات کر رکھے تھے۔
اُدھر قومی اسمبلی میں جمعہ کو دوسرے روز بھی شہباز بھٹی کے قتل پر پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ایوان کے اجلاس سے خطاب میں حزب اقتدارواختلاف کے اراکین نے کہا کہ یہ واقعہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ رحمن داخلی سلامتی کے اُمور چلانے میں ناکام ہو گئے ہیں۔
حکمران جماعت کے رکن قومی اسمبلی جمشید دستی اور حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ق) کے رہنما فیصل صالح حیات نے رحمن ملک سے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔
جمشید دستی کا موقف تھا کہ کیوں کہ رحمن ملک سیاسی شخصیت نہیں ہیں اس لیے اُنھیں ووٹروں کے سامنے اپنی کارکردگی کا دفاع کرنے کی ضرورت پیش آتی۔ اُنھوں نے وزیر داخلہ کا اہم عہدہ کسی سیاسی شخصیت کے سپرد کرنے پر زور دیا۔
تاہم ایوان میں بحث سمیٹتے ہوئے رحمن ملک نے اپنے خلاف کی جانے والی تنقید کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے حکومت اور پولیس کی جانب سے شہباز بھٹی کے لیے حفاظتی اقدامات میں غفلت برتے جانے کے الزامات کو مسترد کیا۔
اراکین پارلیمان کی طرف سے استعفی کے مطالبات کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ اگر تحقیقات کے ذریعے اُن پر یا قانون نفاذ کرنے والے اداروں پر لگائے گئے الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو اُنھیں مستعفی ہونے میں کوئی عار نہیں ہو گی۔
شہباز بھٹی گذشتہ دو ماہ کے دوران تحفظ ناموس رسالت ایکٹ میں ترامیم کی حمایت پر قتل کی جانے والی دوسری اہم سیاسی شخصیت ہیں۔ اس سے قبل پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو اُن کی حفاظت پر مامور ایک پولیس اہلکار، ممتاز قادری ، نے 4 جنوری کو اسلام آباد میں گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ زیر حراست محافظ نے عدالت کو بتایا ہے کہ اُس نے سلمان تاثیر کو تحفظ ناموس رسالت ایکٹ کو ’کالا قانون‘ قرار دینے کی وجہ سے قتل کیا۔
ملکی اور عالمی سطح پر شہباز بھٹی اور سلمان تاثیر کے قتل کی پُرزور مذمت کی گئی ہے اور اہم رہنماؤں اور سول سوسائٹی سمیت مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد ان واقعات کو پاکستان میں معتدل سوچ کو دبانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے شہباز بھٹی کے قتل پر بدھ کو تین روز قومی سوگ کا اعلان کیا تھا۔