کرکٹ ورلڈ کپ کے گروپ میچوں میں مسلسل تین کامیابیوں کے بعد چوتھے میچ میں نیوزی لینڈ کے ہاتھوں 110رنز کی شکست پر قومی ٹیم خصوصاً وکٹ کیپر کامران اکمل کی ناقص کارکردگی پر شائقین کرکٹ کی طرف سے ہدف تنقید بنی ہوئی ہے۔ لیکن پاکستان کے تین سابق کپتانوں نے اس شکست کو ٹیم کے لیے ایک انتباہ قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ نیوزی لینڈ کے ہاتھوں میچ ہارنے کو ایک ڈراؤنے خواب کی طرح خود پر طاری نہیں کرنا چاہیے۔
منگل کو نیوزی لینڈ کے خلاف سری لنکا میں کھیلے جانے والے میچ میں کامران اکمل نے راس ٹیلر کے آسان کیچ چھوڑے جس کے بعد اس بلے باز نے ملنے والی ’نئی زندگی‘ کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے نہ صرف سینچری اسکور کی بلکہ ٹیم کے مجموعی اسکور کو تین سو تک لے جانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
کامران اکمل کی وکٹوں کے پیچھے ناقص کارکردگی کو پاکستانی ٹیم کی شکست کا بنیادی سبب سمجھا جارہا ہے مگر سابق کپتان رمیض راجہ نے انگریزی روزنامہ ’ڈان‘ کے لیے لکھے گئے اپنے مضمون میں کہا ہے کہ غلطی صرف اکمل ہی کی نہیں تھی بلکہ باؤلر بھی اس کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے آخری دس اوورز میں انتہائی خراب باؤلنگ کا مظاہرہ کیا۔
رمیض لکھتے ہیں کہ راس ٹیلر نے پاکستانی بلے بازوں یونس خان اور مصباح الحق کی طرح شروع میں محتاط بیٹنگ کی اور چالیسویں اوورز کے بعد اس نے باؤلروں پر تابڑ توڑ حملے کیے۔ ”یہاں پاکستان کوکچھ ایسے سوالات کا جواب دینا ہے کہ آخرٹیم کب تک عدم اعتماد کا شکار وکٹ کیپر کامران اکمل کو ساتھ لے کر چلے گی جس کی کارکردگی پاکستان کی مہم کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوئی ہے۔کون شعیب اختر کو یہ بتانے کی جرات کرے گا کہ وہ میچ فٹ ہیں یا نہیں؟ اور اگر وہ جسمانی طور پر فٹ ہوتے تو آخری اوورز میں فُل ٹاس گیندوں پر چھکے چوکے کھانے کی بجائے وہ یارکر کرواتے۔“
رمیض نے اپنے مضمون میں آف اسپن باؤلر سعید اجمل کو کھیلانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ عبدالرحمن کی نسبت مشکل حالات میں زیادہ بہتر کارکردگی دکھانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔” جو ہونا تھا وہ ہوگیا۔ٹیم کو چاہیے کہ وہ اس(نیوزی لینڈسے) شکست کو ذہن سے نکال دے اور زمبابوے کے خلاف ان غلطیوں کو نہ دہرائے ۔“
پاکستان اور زمبابوے کے درمیان میچ چودہ مارچ کو پالی کیلے میں کھیلا جائے گا۔
سابق کپتان وسیم اکرم نے بھی شائقین کرکٹ سے اپیل کی ہے کہ وہ پاکستانی ٹیم کی نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست کو دل پر مت لیں ۔ ”ہار جیت کھیل کا حصہ ہوتی ہے اورصبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑے بغیر شائقین اپنی ٹیم کی حمایت کریں“۔
انھوں نے ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں بنگلہ دیش کی شکست کے بعد بنگالی شائقین کی طرف سے پہلے مہمان ٹیم کی بس اور بعد ازاں کپتان شکیب الحسن کے گھر پر پتھراؤ کے واقعے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھیں امید ہے کہ پاکستانی شائقین ایسی کوئی حرکت نہیں کریں گے۔
1996ء اور 1999ء کے عالمی کپ سے باہر ہونے پر نالاں پاکستانی شائقین نے وسیم اکرم کے گھر پر بھی پتھراؤکیاتھا۔
1992ء کا ورلڈ کپ جیتنے والی پاکستانی ٹیم کے کپتان عمران خان نے بھی کہا ہے کہ کھلاڑی نیوزی لینڈ سے میچ ہارنے کے بعدکسی ’افراتفری‘ کا شکار نہ ہوں کیونکہ دوسری صورت میں عالمی کپ جیتنے کی پاکستان کی مہم کو نقصان پہنچے گا ”اچھا ہے کہ یہ شکست ٹورنامنٹ کے اس مرحلے میں ملی ہے۔اب ٹیم کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ از سر نو اپنی تنظیم کرے اور ہر کھلاڑی کو واضح طور پر میچ میں اس کا کردار سمجھائے۔“
عمران خان نے قومی ٹیم کو مشورہ دیا ہے کہ بیٹنگ کرتے وقت مصباح الحق اور یونس خان کو بیٹنگ آرڈر میں ابتدائی نمبروں پر ہی کھیلایا جائے۔