پی سی بی نے حال ہی میں کھلاڑیوں کو تنخواہ کے ساتھ چھٹی دینے کی ایک جامع پالیسی کا اعلان کیا ہے، جس کے مطابق مرد اور خواتین کرکٹرز بچے کی پیدائش کے موقع پر تنخواہ کے ساتھ چھٹی اور دیگر مراعات کی پالیسی سے مستفید ہو سکیں گے۔
پاکستان میں عام طور پر شائقین کرکٹ ملکی کرکٹ بورڈ کے فیصلوں کو تنقیدی نظروں سے دیکھتے ہیں، لیکن جب کوئی اچھا فیصلہ یا پالیسی سامنے آتی ہے۔ تو اسے کھل کر داد بھی دی جاتی ہے۔ ایسا ہی کچھ پی سی بی کی مرد اور خواتین کرکٹرز سے متعلق تنخواہ، چھٹیوں اور مراعات کی پالیسی کے بارے میں بھی کیا جارہا ہے۔ شائقینِ کرکٹ، کھلاڑی اور صحافی پی سی بی کے اس فیصلے پر مختلف انداز سے تبصرے کر رہے ہیں۔
نئی پالیسی میں کیا ہے؟
اس نئی پالیسی کے مطابق اگر خواتین کھلاڑی چاہیں تو زچگی کی چھٹی کے آغاز سے لے کر بچے کی پیدائش تک 'نان پلیئنگ رول' اختیار کر سکیں گی جیسے کہ اسسٹنٹ منیجر، اسسٹنٹ کوچ، منیجر وغیرہ۔ اس دوران نہ تو ان کی تنخواہ کاٹی جائے گی اور نہ ہی کانٹریکٹ پر کوئی فرق پڑے گا۔ بلکہ وہ تنخواہ کے ساتھ 12 مہینے کی چھٹی اور ایک سال کانٹریکٹ کی توسیع کی بھی حق دار ہوں گی۔
چھٹی کے اختتام پر ان خواتین کرکٹرز کو دوبارہ کرکٹ سرگرمیوں میں نہ صرف شامل کیا جائے گا بلکہ طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے بھی اُن کے ساتھ تعاون کیا جائے گا۔
صرف یہی نہیں اس پالیسی کے تحت اگر باپ بننے والے کرکٹرز بھی مکمل تنخواہ کے ساتھ 30 دن کی چھٹی لینے کے حق دار ہوں گے۔ شرط یہ ہو گی کہ وہ یہ چھٹیاں بچے کی پیدائش کے دو ماہ کے اندر اندر حاصل کریں۔
'پاکستان کرکٹ بورڈ کی نئی پالیسی قابلِ تعریف ہے'
سابق اور موجودہ کھلاڑیوں نے اس پالیسی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے فیصلوں سے پاکستان کرکٹ کو درست سمت میں جانے میں مدد ملے گی۔
سابق کپتان ثنا میر کا کہنا تھا کہ اس پالیسی سے خواتین کھلاڑیوں کو اپنی ازدواجی اور پروفیشنل زندگی میں توازن رکھنے میں مدد ملے گی۔
موجودہ ٹیم کی کھلاڑی جویریہ خان نے بھی اس فیصلے کی تائید کرتے ہوئے اسے ملک میں ویمن کرکٹرز کے لیے خوش آئند قرار دیا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس نئی پالیسی کا اعلان ایسے وقت میں کیا ہے جب خواتین ٹیم کی کپتان بسمہ معروف نے حال ہی میں ایک ٹوئٹ کے ذریعے اعلان کیا تھا کہ وہ ماں بننے والی ہیں۔
بورڈ کی اس پالیسی کے بعد قومی ٹیم کی کپتان پہلی کرکٹر ہوں گی جو کرکٹ سے وقفہ بھی لیں گی اور ان کی جگہ کو بھی کوئی خطرہ بھی نہیں ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ نئی پالیسی پاکستان میں خواتین کرکٹ کو آگے لے جانے میں مددگار ثابت ہو گی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس قدم سے خواتین بلاخوف و خطر کھیل جاری رکھ سکیں گی بلکہ انہیں دیکھ کر گراس روٹ لیول پر بھی نئے آنے والوں کو حوصلہ ملے گا۔
بورڈ سے اجازت لینے کا جھنجھٹ ختم
پاکستان کرکٹ کا مرد اور خواتین کرکٹرز کے لیے سامنے آنے والا یہ فیصلہ اس لیے بھی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ کیوں کہ دنیا کے کئی ممالک میں آج بھی بچے کی پیدائش پر بورڈ سے باقاعدہ اجازت لے کر ہی چھٹی ملتی ہے۔
کسی سیریز یا ٹورنامنٹ کے دوران کھلاڑی کچھ روز کے لیے چھٹی پر جاتے ہیں اور اُنہیں دوبارہ ٹیم کو جوائن کرنا ہوتا ہے اور یہ بھی متعلقہ کرکٹ بورڈ کی صوابدید ہوتی ہے کہ وہ کھلاڑی کو چھٹی دے یا نہ دے۔ البتہ پی سی بی کے اس فیصلے کے بعد ایک باقاعدہ پالیسی بن جائے گی جس میں کھلاڑیوں کو اجازت کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
حال ہی میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان وراٹ کوہلی بھی بورڈ کی اجازت سے ہی دورۂ آسٹریلیا اُدھورا چھوڑ کر اپنی بیٹی کی پیدائش پر بھارت آئے تھے۔ تاہم اب پاکستانی کرکٹرز کے لیے بورڈ سے اجازت لینے کا جھنجھٹ ختم ہو جائے گا۔
کرکٹ مبصرین کے مطابق بھارتی کرکٹ بورڈ نے 1976 میں لٹل ماسٹر سنیل گواسکر کی چھٹی کی درخواست رد کر دی تھی جس کے بعد انہوں نے اپنے بیٹے روہن کو ڈھائی ماہ بعد دیکھا تھا۔
سابق بھارتی کپتان سارو گنگولی اور ایم ایس دھونی نے اپنے کیریئر کے دوران ملک کے لیے کھیلنے کو زیادہ اہمیت دی اور چھٹیاں نہ لینے کا فیصلہ کیا۔
سابق پاکستانی کرکٹر محمد عامر نے گزشتہ سال دورۂ انگلینڈ میں شرکت سے اسی لیے معذرت کی تھی، کیوں کہ ان کی حاملہ بیوی کی دیکھ بھال کے لیے کوئی نہیں تھا اور کرونا کی وجہ سے وہ کسی کو مدد کے لیے بلانے سے قاصر تھے۔
حال ہی میں انگلش کھلاڑی جو روٹ، کیوی کپتان کین ولیم سن، بھارتی بلے باز روہت شرما، اور انگلش کرکٹر جو ڈینلی اپنے بورڈ سے اجازت کے بعد ہی 'پیرنٹل لیوز' پر گئے تھے۔
اگر خواتین کرکٹرز کی بات کی جائے تو نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کی کپتان ایمی سیٹرتھویٹ پہلی خاتون کرکٹر تھیں جنہوں نے زچگی کی چھٹیاں حاصل کی تھیں۔
پی سی بی کا فیصلہ دوسری اسپورٹس باڈیز کے لیے مثال
سینئر صحافی عافیہ سلام نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے اس فیصلے کو خوش آئند اور وقت کی ضرورت قرار دیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے فیصلوں سے نہ صرف خواتین کرکٹرز کی حوصلہ افزائی ہو گی بلکہ دوسرے کھیلوں کی خواتین کو بھی فائدہ ہو سکتا ہے۔
عافیہ سلام کہتی ہیں کہ "ملک میں پی سی بی سے بڑا کوئی اور بورڈ، فیڈریشن یا ایسوسی ایشن نہیں ہے، اسی لیے جو بھی فیصلہ پاکستان کرکٹ بورڈ کرتا ہے۔ آگے جا کر کھیلوں کی دیگر تنظیمیں بھی اس کی تقلید کرتی ہیں۔"
اُن کا کہنا تھا کہ پی سی بی کے اس فیصلے نے جہاں خواتین کرکٹرز کو ایک نئی امید دی ہے کہ وہ شادی اور ماں بننے کے بعد بھی کھیل جاری رکھ سکتی ہیں، وہیں دوسری تنظیموں کو بھی یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ بھی اپنے قوانین میں تبدیلی لائیں۔"
عافیہ سلام نے یہ بھی کہا کہ اس قسم کی پالیسیاں دنیا بھر میں اپنائی جاتی رہی ہیں، پاکستان میں اگرچہ کرکٹ بورڈ اس طرف دیر سے آیا، لیکن درست آیا، مینز کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی اب قانونی طور پر اپنے بچوں کی ولادت پر ٹور چھوڑ سکیں گے. اس سے قبل وہ ایسا کرنے کے لیے درخواست دیا کرتے تھے جو کبھی منظور اور کبھی سیریز کی اہمیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے مسترد بھی ہو جایا کرتی تھیں۔
زچگی کی چھٹی پر دنیا میں کیا قوانین ہیں؟
میٹرنٹی لیوز یا زچگی کی چھٹیوں کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو دنیا اس میں دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے، انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق 167 میں سے صرف 79 ممالک میں میٹرنٹی لیوز فراہم کی جاتی ہیں، کسی ملک میں صرف ایک دن اور کئی ممالک میں یہ دورانیہ 90 دن کا ہوتا ہے۔
پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت میں سرکاری ملازمین کو 15 دن کے لیے جب کہ پرائیویٹ اداروں میں مالکان کی صوابدید پر ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو کتنے دن کی چھٹی دیتے ہیں۔ خواتین کی چھٹی کا دورانیہ زیادہ ہوتا ہے لیکن صرف ان ممالک میں جہاں قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔
کھیلوں میں خواتین کھلاڑیوں کے کیریئر کا دورانیہ مردوں کی نسبت کم ہوتا ہے۔ اس لیے یا تو وہ شادی کے بعد کھیل سے کنارہ کشی اختیار کر لیتی ہیں، یا پھر خود ہی بچوں کے بڑے ہو جانے کے بعد دوبارہ ٹیم میں واپسی کی کوشش کرتی ہیں۔
'جہاں ایتھلیٹ خود فیصلہ سازی کا حصہ ہو، وہاں فیصلے بھی اچھے ہوتے ہیں'
پاکستان کی نام ور اسکواش کھلاڑی نورینہ شمس کا کہنا ہے کہ کھلاڑیوں کو ساتھ بٹھا کر جب بھی فیصلہ کیا جاتا ہے، تو نتیجے میں اچھا ہی فیصلہ سامنے آتا ہے۔
اُن کے بقول پاکستان کرکٹ بورڈ کا حالیہ فیصلہ خوش آئند ہے جو دیگر اسپورٹس ایسوسی ایشنز، اور فیڈریشنز کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہو سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "پی سی بی کی نئی پالیسی بھی اس لیے درست وقت پر سامنے آئی کیوں کہ انتظامیہ نے مصباح الحق، ثنا میر اور عروج ممتاز جیسے کھلاڑیوں کے ساتھ بیٹھ کر مشاورت کی اور اس پر عمل کیا۔ لہذٰا دیگر کھیلوں میں بھی اس قسم کی مشاورت ہونی چاہیے۔
نورینہ شمس نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ سے پہلے اسکواش میں ڈپارٹمنٹس نے یہ روایت ڈالی تھی کہ زچگی پر خاتون کھلاڑی کو سہولت فراہم کی جاتی تھی۔
اُن کے بقول اسکواش کھلاڑی سعدیہ گل کو ان کے ڈپارٹمنٹ نے یہ سہولت دی اور وہ زچگی کے بعد اسکواش کورٹ میں واپس آئیں۔