پاکستان کے مرکزی بینک نے حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس پانچ ماہ مثبت رہنے کے بعد دسمبر میں ایک بار پھر منفی ریکارڈ کیا گیا جو 66 کروڑ 20 لاکھ امریکی ڈالرز رہا۔ جب کہ نومبر میں کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس 51 کروڑ 30 لاکھ ڈالرز مثبت رہا تھا۔
اگر جولائی 2020 سے دسمبر 2020 کا جائزہ لیا جائے تو بھی کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس مثبت نظر آتا ہے جو ایک ارب 13 کروڑ 10 لاکھ ڈالرز رہا۔
یاد رہے کہ اسی عرصے کے دوران گزشتہ مالی سال میں یہ خسارہ دو ارب ڈالرز سے زائد ریکارڈ کیا گیا تھا۔
معیشت میں کسی ملک کے کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس سے مراد اس ملک کی اس خاص عرصے میں کی جانے والی برآمدات اور درآمدات کے درمیان فرق کو کہا جاتا ہے۔
کرنٹ اکاؤنٹ کا دار و مدار برآمدات اور درآمدات کے درمیان فرق کے ساتھ ساتھ، بیرونِ ملک سے آنے والی رقوم اور اندرونں ملک جاری منتقلیوں پر بھی منحصر ہوتا ہے۔
مرکزی بینک کے اعداد و شمار یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ دسمبر 2020 میں دسمبر 2019 کے مقابلے میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 131 فی صد اضافہ دیکھا گیا اور گزشتہ ماہ شمار ہونے والا جاری کھاتوں (کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس) کا یہ خسارہ جون 2019 کے بعد سب سے بلند ترین خسارہ رہا۔ جب پاکستان کو ایک ماہ کے دوران 98 کروڑ 10 لاکھ ڈالرز کے خسارے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
معاشی ماہرین کے خیال میں اس اضافے کی سب سے بڑی وجہ کُل درآمدات میں ہونے والا اضافہ ہے۔ جو پہلے کی نسبت 27 فی صد بلند ہے۔
تاہم اس عرصے کے دوران پاکستان کی برآمدات میں آٹھ فی صد اور بیرونِ ملک سے بھیجی گئی ترسیلاتِ زر میں بھی 16 فی صد اضافہ دیکھا گیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ مارچ 2015 کے بعد جولائی تا نومبر 2020 پہلے ایسے پانچ ماہ گزرے ہیں جب پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ منفی کے بجائے مثبت ریکارڈ کیا گیا اور ایک دہائی کے دوران ایسا فقط دو بار ہی ممکن ہوا۔ جب مسلسل چار ماہ تک ملک کے جاری کھاتے منفی کے بجائے مثبت ظاہر ہوئے۔
'ہماری تاریخ رہی ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ اکثر منفی ہی رہا ہے'
ماہر معیشت فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ حکومت نے کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس پچھلے پانچ ماہ مثبت ظاہر ہونے کو اپنی بڑی کامیابی سے تعبیر کیا تھا۔ مگر ان کے بقول یہ مبصرین کے آپس کی بحث و مباحثے اور ان کی وجوہات جاننے کی کوشش کے لیے تو ٹھیک ہے لیکن عام آدمی کے لیے اس کی کوئی اہمیت نہیں۔
فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ اس میں حیرانگی کی بات نہیں بلکہ یہ ایک معمول کی بات ہے اور ہماری تاریخ یہ رہی ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ اکثر منفی ہی رہا ہے اور نہ صرف پاکستان بلکہ بہت سارے ترقی پذیر ممالک میں کرنٹ اکاؤنٹ منفی ہی ظاہر ہوتا ہے۔
انہوں نے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ یا جاری کھاتوں کا حساب درحقیقت ادائیگیوں کے توازن کے بڑے منظر نامے کا ایک حصہ ہے اور صرف اس کے ایک حصے یعنی جاری کھاتوں ہی کے مثبت آنے پر ماضی میں اسے اپنی کامیابی سے تعبیر کرنا حکومت کی محض سیاسی پوائنٹ اسکورنگ تھی۔ کیوں کہ ان کے بقول محض منتخب اشاریوں کو مثبت بتانا پوری تصویر کو ظاہر نہیں کرتا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ادائیگیوں کے توازن کی بڑی تصویر کی بھی بات کی جائے تو وہ بھی ہمارا منفی ہی رہا ہے اور اسی وجہ سے ہم قرضے لے کر اس فرق کو کم کرتے ہیں اور یہ رجحان اکثر ترقی پذیر ممالک میں رہتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت تھوڑی بہت چلنا شروع ہوئی ہے۔ چوں کہ بنیادی طور پر پاکستان درآمدات پر انحصار کرنے والا ملک ہے۔ اس لیے کرنٹ اکاؤنٹ مثبت سے نکل کر منفی اعشاریوں کی جانب آیا ہے اور اس کی بہت ساری وجوہات حکومتی پالیسیاں نہیں بلکہ حالات و واقعات رہے ہیں۔
کپاس کی پیداوار 40 فی صد کم
فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ کرونا وبا کے باعث لوگوں نے ملک سے باہر جانا کم کر دیا تھا۔ اس دوران غیر ملکی زرمبادلہ کی بچت ہوئی۔ اسی طرح ترسیلات زر میں ہونے والا اضافے کی اصل وجہ ایف اے ٹی ایف کے دباؤکے باعث حوالہ اور ہنڈی کا کافی حد تک بند ہونا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ اضافہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بنگلہ دیش، فلپائن اور دیگر ممالک میں بھی ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ ہماری ٹیکسٹائل، ٹوبیکو اور دیگر صنعتوں میں بڑھاؤ دیکھنے میں آیا ہے مگر دیکھنا یہ ہوگا کہ یہ کیسے برقرار رہ پاتا ہے۔ کیوں کہ اس سال پاکستان میں کپاس کی پیداوار 40 فی صد کم ہوئی ہے اور اگر یہی نمو برقرار رکھنی ہے تو ہمیں اتنی ہی مقدار میں کپاس کو درآمد کرنا ہو گا۔ کیوں کہ ان کے بقول خام مال کے بغیر تو ٹیکسٹائل صنعت نہیں چلائی جا سکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت سے ہماری تجارت ویسے ہی بند ہے تو پھر ہمارے پاس دوسرا آپشن برازیل بچتا ہے اور وہاں سے کپاس منگوانا کافی مہنگی پڑتی ہے۔ اس لیے ٹیکسٹائل کی صنعت میں سامنے آنے والی بہتر نمو زیادہ عرصے رہنا مشکل دکھائی دیتی ہے۔
فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ باوجود اس کے کہ ہم ایک زرعی ملک ہیں، حکومت کی جانب سے حال ہی میں گندم، کپاس اور چینی کی در آمد کا فیصلہ کیا گیا ہے جس سے یقینی طور پر آنے والے مہینوں میں خسارہ اور بڑھے گا۔
'اس وقت ملکی کرنسی کافی مستحکم ہے'
معاشی تجزیہ کار اور ‘ایلفا بیٹا کور کیپیٹل مارکیٹ’ کے سی ای او خرم شہزاد کے بقول بھی کرنٹ اکاؤنٹ منفی ہونا خطرے کی بات نہیں۔ کیوں کہ جب بھی معاشی نمو ہوتی ہے تو ایک خاص حد تک خسارہ ہو سکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بڑھتی ہوئی معیشتوں میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کوئی بڑی بات نہیں۔ لیکن ماضی میں دو ارب ڈالرز کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارے جیسی صورتِ حال نہیں ہونی چاہیے۔
ان کے بقول اس میں فی الحال قابل اطمینان بات یہ ہے کہ اس وقت ملکی کرنسی کافی مستحکم ہے جب کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر بھی بہتر پوزیشن میں ہیں۔
تاہم ان کا خیال ہے کہ اس وقت پریشانی کی بات ملک میں زرعی شعبہ ہے جہاں کپاس کی کم پیداوار کی وجہ سے ٹیکسٹائل کا شعبہ متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ جب کہ پاکستان کے زرعی ملک ہونے کے باوجود درآمدات میں فوڈ آئٹمز زیادہ ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں مشینری کے درآمدات نہیں بڑھیں اور اس سے ہی اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ہماری معیشت پھل پھول رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے اب تک زراعت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے حالاں کہ اس میں بہت زیادہ پوٹینشل موجود ہے۔
لیکن ان کے بقول ہماری غذائی افراطِ زر بلند ہے اور فی رقبہ پیداوار بھی کم ہے۔ اس شعبے میں مزید ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کی اشد ضرورت ہے۔ کیونں ہ ہماری معیشت کا بڑی کمائی اس شعبے سے وابستہ ہے۔
مثبت رجحان معیشت کے لیے کس قدر بہتر ہے؟
دوسری جانب پاکستان کے ادارہ برائے شماریات کے جاری کردہ تازہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ملک میں رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں بڑے پیمانے پر اشیا سازی کی صنعتوں کی پیداوار میں گزشتہ مالی سال کے پہلے پانچ ماہ کی نسبت 7.41 فی صد اضافہ دیکھا گیا۔
اس عرصے کے دوران ٹیکسٹائل، فوڈ اینڈ بیوریجز، ٹوبیکو، پیٹرولیم مصنوعات، فارماسیوٹیکل، کیمیکلز، گاڑیوں اور فرٹیلائزر کی صنعتوں میں مثبت رجحانات دیکھے گئے۔ تاہم لوہے اور اسٹیل کی اشیا، الیکٹرونکس، چمڑے اور انجنئیرنگ کی مصنوعات میں کمی ریکارڈ کی گئی۔
خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر اشیا سازی کی صنعتوں کی جانب سے پیداوار میں اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ معیشت میں کچھ جان آئی ہے اور اس سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے ان سیکٹرز کو کچھ مراعات دی گئی ہیں جس کی وجہ سے یہاں بہتری نظر آئی ہے اور ظاہر ہے کہ صنعتوں کی ترقی ہی کی وجہ سے روزگار کے کچھ مواقع بھی بڑے ہیں۔
بجلی کی قیمت میں اضافہ
ادھر جمعرات کو حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں ایک روپے 95 پیسے فی کلو واٹ آور بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو اس وقت کُل قیمت کا 15 فی صد بنتا ہے۔
اس کا اطلاق ملک بھر کے بجلی کے صارفین پر ہوگا اور حکومت کو اس طرح 200 ارب روپے کی آمدن متوقع ہے۔
حکومت کے اس اقدام کا مقصد جہاں گردشی قرضوں کا حجم کم کرنا بتایا گیا ہے وہیں معاشی ماہرین کے خیال میں اس عمل سے معیشت کی بحالی میں بھی رکاوٹ پیدا ہوگی اور صنعتوں کی مسابقت کم ہوگی۔ جس سے درآمدات پر منفی اثر پڑسکتا ہے۔
ان کے خیال میں اس اضافے سے ملک میں تجارتی اور معاشی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جو کئی ماہ کے بعد کرونا وبا کی وجہ سے بحالی کی جانب گامزن ہیں۔