پاکستان کے وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے حال ہی میں جاری کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں کرونا وبا کے باعث دو کروڑ 6 لاکھ لوگ ایسے ہیں جن کا لاک ڈاؤن کی وجہ سے روزگار ختم ہو گیا جس کے نتیجے میں آبادی کے دس فی صد افراد کو شدید غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں شدید غذائی عدم تحفظ دو سال پہلے 3 فی صد تھا جو کرونا وبا کی پہلی لہر کے دوران 10 فی صد تک پہنچ گیا ہے جب کہ معتدل غذائی قلت 13 سے بڑھ کر 30 فی صد ہوگئی ہے۔ تاہم ملک میں 60 فی صد افراد کو کرونا وبا کے عرصے کے دوران غذائی تحفظ برقرار رہا۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ 33 فی صد شہری آباد کو معتدل غذائی عدم تحفظ کا سامنا رہا۔
دیہی علاقوں میں یہ شرح 30 فی صد رہی۔ صوبوں کے موازنے میں بات سامنے آئی کہ سندھ میں 52 فی صد گھرانوں نے کرونا وبا کے دوران معتدل غذائی عدم تحفظ کا سامنا کیا۔ اسی طرح پنجاب اور بلوچستان میں یہ شرح 39 فی صد رہی۔ خیبر پختونخوا میں 13 فی صد گھرانوں کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنا پڑا۔
ماہرین کے مطابق غذائی عدم تحفظ سے مراد یہ ہے کہ لوگ خوارک کا استعمال تو کرتے رہے، لیکن اُنہوں نے معاشی مشکلات کے باعث اپنی غذا میں شامل چیزیں کم کر دیں جس سے اُن کی غذائی ضروریات پوری نہیں ہو سکیں۔
سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اپریل سے جولائی 2020 کے دوران 12 فی صد گھرانے ایسے بھی رہے جو پورا دن بھوکے رہے جب کہ 22 فی صد کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہ بچا۔
سروے کے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں تقریباً 13 فی صد ایسی افرادی قوت تھی جسے کرونا وبا کے دوران روزگار سے محروم ہونا پڑا اور اس دوران ان میں سے 54 فی صد نے اپنے غیر غذائی اخراجات کم کر دیے۔
ان میں سے 50 فی صد اپنے غذائی اخراجات کو بھی کم کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ان میں سے 47 فی صد افراد ایسے بھی تھے جنہیں اپنی جمع پونجی بشمول جائیداد کو بھی بیچ کر خرچ کرنا پڑا۔ حتیٰ کہ تقریبا 30 فی صد ادھار لے کر گزارا کرنے پر مجبور ہو گئے۔
ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق اس مشکل دور میں مشکلات میں گھرے افراد کی حکومت، نجی شعبے اور کئی غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے بھی مدد کی گئی۔ جس سے ایک کروڑ 70 لاکھ گھرانوں کی معاشی امداد ممکن ہو سکی۔
کرونا وبا کے معاشی اور سماجی اثرات کا جائزہ لینے کے لیے کیے جانے والے سروے کی رپورٹ میں غذائی تحفظ کے علاوہ معیشت، صحت اور دیگر شعبوں کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ پاکستان اپنی ضرورت سے زیادہ خوراک پیدا کرنے والا ملک ہے اور دنیا میں گندم پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی غذائی عدم تحفظ پاکستان کا بڑا مسئلہ رہا ہے۔ جہاں خواتین اور بچے غذائی قلت کی وجہ سب سے زیادہ متاثر ہیں اور صرف 15 فی صد بچے ہی ضروری غذا حاصل کر پاتے ہیں۔
'معاشی مشکلات کے باعث غذائی معیار متاثر ہونا باعث تشویش ہے'
آغا خان یونیورسٹی کراچی میں ایسوسی ایٹ ڈین آف ریسرچ ڈاکٹر سید اسد علی کا کہنا ہے کہ غذائی عدم تحفظ کا براہ راست تعلق غربت سے ہوتا ہے جب کہ غذائی عدم تحفظ پائے جانے کی ہر علاقے میں مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں۔
اُن کے بقول شہری علاقوں اور پھر دیہی علاقوں میں موجود گھرانوں کو مختلف نوعیت کے چیلنجنز کا سامنا ہوتا ہے اور اسی طرح اس سے نمٹنے کے لیے دونوں جگہوں پر حل بھی مختلف ہوتے ہیں۔ شہری علاقوں میں رہنے والوں کے پاس غربت کے چکر سے نکلنے کے مواقع زیادہ ہیں۔ کیوں کہ شہر میں کاروباری سرگرمیاں، تجارت زیادہ ہونے سے ملازمت کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔
اسد علی کے مطابق ایسی صورتِ حال میں اگر کوئی مزدور، مزدوری کی خاطر شہر میں رہائش پذیر تھا اور پھر وہ اپنے خاندان کو یہاں لے آیا تھا۔ اچانک کاروبار بند ہونے سے انہیں سب سے زیادہ فکر اپنے روز مرہ کے اخراجات بالخصوص کھانے پینے کی اشیا پر صرف ہونے والی رقم کی ہوتی ہے۔
ڈاکٹر اسد کے مطابق دیہی علاقوں میں صورتِ حال کچھ حد تک اب بھی مختلف ہے۔ کیوں کہ ایسے خاندان اگر دیہات ہی میں رہیں تو پھر وہاں تو وہ کسی نہ کسی طور مل جل کر گزارہ کر لیتے ہیں۔
لیکن اُن کے بقول شہروں میں اس کا رحجان کم ہوتا ہے۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ گھرانہ معاشی سرگرمیوں سے شدید غربت کا شکار ہو جاتا ہے اور انہیں کھانے کے بغیر بھی رہنا پڑ سکتا ہے جیسا کہ یہ سروے ظاہر کرتا ہے۔
ڈاکٹر اسد کے مطابق جب بھی ایسے معاشی یا غذائی بحران سامنے آتے ہیں تو لوگ عام طور پر اپنے اہم ترین کھانے (اسٹیپل فوڈ آئٹمز) پر سمجھوتہ نہیں کرتے بلکہ غذائیت فراہم کرنے والے غیر اہم سمجھے جانے والی غذائی اشیا پر کم خرچ کرتے ہیں۔
اُن کے بقول اس کی مثال ایسی دی جاسکتی ہے کہ بُرے وقت میں لوگ گندم کی روٹی پر ہی گزارا کرلیتے ہیں حالاں کہ اس میں غذائیت ایک حد تک ہی ہوتی ہے جب کہ ایسے مشکل حالات میں گوشت، دالیں، پھل اور دیگر اشیا نہیں خریدی جاتیں۔
ڈاکٹر اسد کا کہنا ہے کہ ایسے مشکل معاشی حالات میں لوگوں کا غذائی معیار متاثر ہونا سب سے زیادہ فکر مندی کی بات ہے۔
اداراہ شماریات کی 2015-2016 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 25 فی صد افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
البتہ کرونا وبا کے منفی معاشی اثرات نے بڑی تعداد میں گھرانوں کو خطِ غربت سے نیچے دھکیلنے پر مجبور کیا ہے جس کا فی الحال کوئی ڈیٹا حکام کے پاس موجود نہیں۔
سروے رپورٹ کے مطابق اگرچہ بہت سے لوگوں کے ذرائع آمدنی اب بحال ہونا شروع ہو چکے ہیں مگر اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آبادی کے کس قدر بڑے حصے کو معاشی اور اقتصادی سرگرمیاں مانند پڑنے کے اثرات سے متاثر ہونا پڑا تھا۔
'ضروری نہیں کہ پیٹ بھرنے سے غذائی ضرورت پوری ہوتی ہے'
ڈاکٹر اسد کہتے ہیں کہ یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بھوکا نہ ہونے کی تعریف صرف یہ نہیں کہ پیٹ بھرا ہوا ہے بلکہ بھوک کا تصور آج کی دنیا میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اب ایسے میں ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ہرشخص کم سے کم قابلِ قبول غذائیت سے بھرپور خوراک حاصل کر پا رہا ہے یا نہیں۔
کم سے کم قابلِ قبول غذائیت سے بھرپور اشیا نہ کھانے سے خواتین اور بچوں میں پروٹین کی کمی، پٹھے کمزور، فیٹس، مائیکرو نیوٹرینٹس، وٹامنز، آئرن اور دیگر معدنیات جیسی ضروری غذائی اشیا کی کمی کے مسائل عام ہیں۔
اگرچہ ان کے پیٹ تو بھرتے ہیں مگر ان کے اجسام بالکل کمزور اور نڈھال ہوتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسے افراد کی ان ضروریات کا خیال رکھنے والی غذائیں انہیں دی جائیں تاکہ بچوں کی صحت بہتر ہو، بچیاں جب بڑی ہو کر ماں بنیں تو وہ صحت مند بچوں کو جنم دیں۔ اگر ہم بھوک کے محدود تصور ہی پر اکتفا کرتے رہے تو پھر صرف فائر فائٹنگ ہی پر ساری صلاحیتیں صرف ہوتی رہیں گی۔
اس سروے رپورٹ میں لوگوں کے روزگار، آمدن، روزگار کے مواقع ضائع ہونے، سماجی تحفظ کے پروگرامز، غذائی عدم تحفظ، پانی اور نکاسیٔ آب کی تفصیلات کے علاوہ کرونا وبا سے بچاؤ کے لیے اختیار کی جانے والی مختلف تدابیر اور صحت کی سہولیات تک رسائی اور انہیں استعمال میں لانے جیسی معلومات جمع کی گئی تھیں۔