سعودی عرب میں گزشتہ جمعرات کو مناسک حج کے دوران بھگدڑ مچنے سے ہلاک ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد 40 ہو گئی ہے جب کہ عہدیداروں کے مطابق لاپتا حاجیوں کی تعداد 63 ہے۔
سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر منظور الحق نے پیر کو ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ 35 پاکستانی حجاج زخمی بھی ہیں۔
اُدھر حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی طارق فضل چوہدری نے پیر کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ حکومت منیٰ کے حادثے میں ہلاک ہونے والے حجاج کے لواحقین میں سے دو سے تین کو حج ختم ہونے کے بعد عمرے کے لیے سعودی عرب بھیجے گی،تاکہ وہ وفات پانے والے اپنے عزیز و اقارب کے لیے دعائے مغفرت کر سکیں۔
اس کے علاوہ حکومت نے مرنے والوں کے لواحقین کے لیے پانچ پانچ لاکھ اور زخمی ہونے والوں کے لیے دو دو لاکھ روپے کی امداد کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
اس سے قبل وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سردار یوسف نے سعودی عرب سے ٹیلی فون پر سرکاری ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہ 217 لاپتا پاکستانی حجاج سے رابطہ ہو چکا ہے جب کہ دیگر لاپتہ شہریوں کی تلاش کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
اس سال دنیا بھر سے بیس لاکھ سے زائد مسلمان حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب پہنچے تھے، جن میں ایک لاکھ 30 ہزار سے زائد پاکستانی بھی شامل تھے۔
گزشتہ جمعرات کو منیٰ میں حج کے رکن ’’رمی جمرات‘‘ جسے عام طور پر ’’شیطان کو کنکریاں‘‘ مارنا بھی کہا جاتا ہے، اس رکن کی ادائیگی کے دوران اچانک بھگدڑ مچنے کے بعد کم ازکم 769 افراد ہلاک اور 934 زخمی ہوگئے تھے۔
یہ گزشتہ 25 برسوں کے دوران حج کے موقع پر پیش آنے والا سب سے ہلاکت خیز واقعہ تھا۔ اس سے قبل 1990ء میں منیٰ ہی میں بھگدڑ مچنے سے 1400 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ہلاک ہونے والے دیگر حجاج میں ایران کے مطابق اس کے ڈیڑھ سو شہری بھی شامل ہیں اور اس نے سعودی عرب کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول کرے اور مسلمانوں اور متاثرہ خاندانوں سے معافی مانگے۔
سعودی عرب نے کہا ہے کہ ایران کو اس واقعے پر سیاست نہیں کرنی چاہیئے اور اس معاملے کی مکمل تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔
ایران اور سعودی عرب روایتی حریف ہیں۔