پاکستان اور بھارت کے اراکین پارلیمان نے مذاکراتی عمل کے تسلسل کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اقتصادی و تجارتی تعلقات میں بہتری سے سیاسی تنازعات کے حل کی راہ ہموار ہو گی۔
اُنھوں نے ان خیالات کا اظہار منگل کو اسلام آباد میں دونوں ملکوں کے قانون سازوں کے درمیان غیر رسمی مذاکرات کے تازہ ترین اجلاس کے موقع پر کیا۔
دو روزہ اجلاس میں شرکت کرنے والے 15 رکنی بھارتی وفد میں بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا بھی شامل ہیں، جن کے خیال میں دوطرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے دونوں حکومتوں کو کردار ادا کرنا ہوگا لیکن اس سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری عوامی نمائندوں کی بنتی ہے۔
’’عوام کا نمائندے ہونے کے ناتے ہم لوگوں کا بہت بڑا کردار ہے۔ ہم ایک طرف عوام کے من کو تیار کر سکتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے رشتوں میں سدھار پیدا ہو، بہتری آئے اور دوسری طرف سرکار (حکومت) پر بھی دباؤ بڑھا سکتے ہیں کہ وہ کس سمت میں جائے۔‘‘
یشونت سنہا کا کہنا تھا کہ غیر سرکاری سطح پر منعقد کیے گئے اس اجلاس میں بات چیت کا محور دوطرفہ اقتصادی و تجارتی تعلقات کی بہتری میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔
اسلام آباد میں بھارت کے سابق سفیر مانی شنکر آیار بھی نئی دہلی سے آنے والے وفد میں شامل ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے اُمید ظاہر کی کہ اپنے پاکستانی ہم منصوبوں کے ساتھ بات چیت میں تجارتی مراعات کے لحاظ سے بھارت کو پسندیدہ ترین ملک یعنی ’ایم ایف این‘ کا درجہ دینے کے بارے میں تحفظات دور کرنے میں مدد ملے گی۔
انڈین نیشنل کانگریس کی نمائندگی کرنے والے مانی شنکر آیار نے دوطرفہ تعلقات میں حالیہ بہتری کا عمل برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ بھارتی پارلیمان پر حملے یا ممبئی جیسے واقعات ایک بار پھر مذاکراتی عمل کو تعطل کا شکار نا کر دیں۔
’’ہماری (بھارت کی) آپ (پاکستان) سے گفتگو بلا تعطل ہونی چاہیئے، شکر ہے کہ اب تو بلا تعطل چل رہی ہے لیکن کچھ ایسا نہیں ہونا چاہیئے جس سے یہ تعطل کا شکار ہو جائیں، اس پر آپ نے روک لگا دیا تو باقی سارے معاملات کا حل نکالنا بہت مشکل چیز نہیں ہو گی۔‘‘
پاک بھارت اراکین پارلیمان کے اجلاس میں پاکستانی وفد میں شامل حزب مخالف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ بھارت کو این ایف این کا درجہ دیا جانا چاہیئے۔
’’میرا خیال ہے کہ اس سے پاکستان کو فوائد زیادہ ہیں کیوں کہ آپ کے تاجروں کو سوا ارب لوگوں پر مشتمل (بھارتی) منڈی میسر آتی ہے۔‘‘
پاکستانی سینیٹ کی خارجہ اُمور کمیٹی کے چیئرمین سلیم سیف اللہ نے اجلاس کے ابتدائی دور کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے دو طرفہ اقتصادی و تجارتی روابط بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔
’’دونوں ملکوں کا خیال ہے کہ دوطرفہ تجارت میں خاصی حد تک اضافہ ہو سکتا ہے اور اس کے پاکستان اور بھارت کی معیشتوں پر اچھے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔‘‘
غیر سرکاری تنظیم ’پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹیو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی‘کے توسط سے پاکستانی اور بھارتی اراکین پارلیمان کی ملاقاتوں کے اس سلسلے کو دونوں وفود بہت مفید کوشش قرار دے رہے ہیں۔
اجلاس میں شریک تقریباً تمام قانون ساز اس بات پر متفق دیکھائی دیے کہ گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران جنگوں اور کشیدہ ماحول سے خطے کے عوام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت ماضی کی پالیسیوں کو پس پشت ڈال کر پائیدار امن کی طرف پیش رفت کریں۔