امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو آنے والے دنوں میں ’’ہنگامی اور فیصلہ کن‘‘ اقدامات کرنا ہوں گے۔
جمعہ کو پاکستان کے سیاسی و عسکری رہنماؤں سے ملاقاتوں کے بعد اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں ہلری کلٹن نے کہا کہ بات چیت میں القاعدہ کو شکست دینے کے لیے دوطرفہ تعاون پر تفصیل اور خلوص نیت سے تبادلہ خیال کیا گیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ القاعدہ اور اس سے منسلک تنظیموں کے خلاف مشترکہ کارروائیوں سے پاکستان، امریکہ اور پوری دنیا مزید محفوظ ہو جائے گی۔ ’’ہم اپنا کردار ادا کریں گے اور ہم توقع کرتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں پاکستانی حکومت بھی فیصلہ کن اقدامات کرے گی۔‘‘
ہلری کلنٹن نے کہا کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پاک امریکہ روابط فیصلہ کْن موڑ پر پہنچ گئے ہیں اور وہ سمجھتی ہیں کہ پاکستان کو صورت حال کی سنگینی کا اندازہ ہے۔
امریکہ کی اسپیشل فورسز نے پاکستان کے شمالی شہر ایبٹ آباد میں 2 مئی کو ایک یک طرفہ آپریشن کرکے القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا تھا، لیکن پیشگی اطلاع کے بغیر پاکستانی سر زمین پر کی گئی اس کارروائی کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات شدید تناوٴ کا شکار ہو گئے۔
دنیا کے مطلوب ترین شخص کی پاکستانی دارالحکومت سے تقریباً 80 کلومیٹر کے فاصلے پر فوجی چھاوٴنی والے ایک حساس علاقے میں روپوشی کے بارے میں ملکی و بین الاقوامی سطح پر سوالات اْٹھائے جا رہے ہیں۔
ہلری کلنٹن کے مطابق اْنھیں پاکستانی حکام نے بتایا کہ کوئی نا کوئی کہیں نا کہیں بن لادن کو مدد فراہم کر رہا تھا، تاہم امریکی وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ اب تک ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ پاکستانی حکومت میں اعلیٰ سطح پر کسی کو بن لادن کی ملک میں موجودگی کا عمل تھا۔
اْنھوں نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان کی حکومتوں، افواج اور خفیہ اداروں کے درمیان قریبی تعاون کی وجہ سے بڑی تعداد میں دہشت گردوں کو ہلاک اور گرفتار کیا گیا لیکن ’’ہم دونوں اس بات سے واقف ہیں کہ اب بھی بہت کام کرنا باقی ہے اور یہ جلد از جلد ہونا چاہیئے۔‘‘
افغانستان میں شدت پسندی کے خاتمے کی کوششوں میں پاکستان کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے سرحد پار حملوں کو روکنے کے لیے کارروائی کرے۔ ’’طالبان کے کئی رہنما اب بھی پاکستان میں موجود ہیں۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ افغانستان میں طالبان شدت پسندوں سے مفاہمت کے عمل کی کامیابی کے لیے اس میں پاکستان کی شمولیت لازمی ہے، جب کہ ان کوششوں کے نتائج سے پاکستان کے جائز مفادات منسلک ہیں۔
ہلری کلنٹن کے دورہ کے موقع پر امریکہ کہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک ملن بھی اْن کے ساتھ موجود تھے اور اُنھوں اس موقع پر پاک امریکہ تعلقات کے بارے میں کہا کہ ”میں سمجھتا ہوں کہ ہم سب کواس بات کا ادارک ہے کہ (پاک امریکہ) تعلقات کو کن چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہ وقت پسپائی کانہیں بلکہ عملی اقدامات کرنے اور قریبی رابطوں کا وقت ہے۔ دوستی کو کمزور نہیں بلکہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اور محدود نہیں بلکہ زیادہ تعاون کرنا ہوگا۔“
اسلام آباد میں اپنے تقریباً چھ گھنٹے قیام ے دوران امریکی وزیر خارجہ نے پاکستانی صدر آصف علی زرداری سے علیحدہ ملاقات کے علاوہ امریکی عہدے داروں کے ساتھ پاکستانی وفد سے بھی ملاقات کی جس میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ، پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل احمد شجاع پاشا بھی شامل تھے۔
ان ملاقاتوں کے بعد ایوان صدر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں نے باہمی احترام اور مشترکہ مفادات کی بنیاد پر پائیدارتعلقات استوار کرنے پر اتفاق کیا۔
بیان کے مطابق انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں فیصلہ کیا گیا کہ ’’مستقبل میں پاکستان میں کسی اہم ہدف کے خلاف کارروائی میں دونوں ملک مل کر کام کریں گے۔‘‘